لیاری کے ڈان : شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک۔قسط سوم

حسن مجتبیٰ

ایک دفعہ بیگم نصرت بھٹو نے کراچی کے حالات پر لیاری میں ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جرائم اور دہشت گردی کا تعلق بھوک بیروزگاری اور غربت سے ہے تو پھر لیاری کے نوجوان کیوں نہیں کلاشنکوف لیکر اپنے پڑوسی کے گھر میں کود جاتے۔”یہ 1980 کی دہائی تھی ابھی لیاری میں بلوچی کے شاعر انور بھائی جان کو لیاری کا الطاف حسین بنائے جانے کوششیں نہیں ہوئی تھیں۔

کچھ دنوں بعد مجھے بابائے بلوچ دانشور اور لیاری کے دو چند بابوں میں سے ایک رحیم بخش آزاد بلوچ نے سنگھولین میں انکے اپنے گھر پر ایک ملاقات میں بتایا تھا “پتہ ہے کیا ہے۔ لیاری کا اصل تضاد سیاہ رنگ کے بلوچوں اور غیر سیاہ رنگت کے بلوچوں میں ہے ۔سیاہ رنگ کے لوگ زیادہ پٹخارے ہوئے ہیں غیر کالی چمڑی والے انہیں بلوچ ہی نہیں سمجھتے۔ اور لیاری کے کالے لوگوں کی اکثریت پاکستان پیپلزپارٹی کے ساتھ ہے۔

جبکہ انہی دنوں میں نے یہ تضاد ساحلی بلوچستان میں بھی جا کر دیکھا جہاں سیاہ بلوچوں کو “در زادہ” کہا جا رہا تھا۔ “یعنی غلام زادہ” اور یہی امتیاز پورے سندھ میں بھی سیاہ رنگت کے افریقی النِسل شیدیوں سے بھی نسل در نسل روا رکھا جا رہا ہےجن کے نسل سے تعلق رکھنے والی خاتون تنزیلہ اب سندھ اسمبلی کے منتخب رکن بھی ہے۔ تو پس لیاری پی پی پی اور بھٹوؤں کا دوسرا گھر ٹھہرا تھا۔ ککری گراؤنڈ میں بینظیر کا ولیمہ ہو یا بختاور کا لیاری کے ہسپتال میں جنم۔

یہ خبر بھی کہ بینظیر کی بیٹی کا نام بختاور ہوگا ۔اسکے لیاری ہسپتال میں جنم سے قبل راقم الحروف نے ان دنوں اپنے کام کرنیوالے انگریزی اخبار دی مسلم میں رپورٹ کی تھی۔ پر اس سے بھی بہت بہت قبل بینظیر کے پردادا غلام مرتضی بھٹو کو ایک ہندو تحصیلدار کے لاڑکانہ میں قتل کے کیس میں بھاگتے چھپتے ہوئے پناہ بھی لیاری کھڈہ کے غلام محمد شیدی نامی شخص نے دی تھی۔ پاکستان سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ بھی کھڈہ کے جم پل تھے۔ لیکن لیاری کے دادا لوگوں کے لیے بھی آصف علی زرداری نیا نام نہیں تھا۔

ستر کی دہائی میں جب “جنگ “ اور “ڈان “ کے درمیان اخبارات کی ترسیل پر جھگڑا ہوا تھا جو کہ اخبارات کے مالکان میں ہوتا رہتا ہے کہ ایک دوسرے کے اخبارات کے بنڈل گم کروا دینا تو لیاری کے داداؤں کا ایک گروپ “ڈان “ کے مالکان کے دفاع میں میدان میں بلایا گیا تھا ۔ اور اس گروپ کا سرغنہ کوئی اور نہیں آصف علی زرداری تھے ۔گروپ کے پاس ایک ہی ہتھیار پستول تھا اور وہ آصف زرداری کے پاس تھا اس کی قمیص کے اندر شلوار میں اڑسا ہوا۔

لیاری کے لوگوں کے لیے بینظیر سے شادی کے بعد آصف علی زرداری بھی اپنا مقام پانے لگے تھے۔ اگست1990 میں بینظیر بھٹو کی پہلی حکومت کے غلام خان اسحاق کی معرفت فوج کے ہاتھوں خاتمے کے بعد عام انتخابات میں آصف علی زرداری لیاری سے بھی قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑے اور کامیاب ہوئے۔ تب لیاری کے جلسوں میں اسی ککری میدان پر لوگوں کو بھٹو یاد آیا جیسے میرے تب بی بی سی کے سینئر دوست نے وہ الیکشنز کور کرتے ہوئے کہا تھا وہ تو بھٹو کی طرح بات کرتا ہے۔

آصف علی زرداری لیاری سے دو مرتبہ یعنی1990 اور1993کے انتخابات میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو ئے۔ وہ ریل میں کہ جیل میں لیکن لیاری کے لوگوں نے آصف علی زرداری کو منتخب کیا۔ لیکن 1993 مختلف تھا۔ اب لیاری کی دیواروں پر ایک نیا نعرہ “مرتضی جلدی آ” اور پھر “مکے پہ مکا مرتضی کا مکا “ جیسے نعرے پڑھنے کو ملے تھے۔ مرتضی1993کے انتخابات میں لیاری سمیت سندھ میں پندرہ نشستوں پر کھڑ ے ہوئے تھے۔

لیاری میں اس کے بڑے بڑے جلسے تو ہوئے تھے جن میں وہ دوران تقریر اپنی قمیص گلے سے پھاڑتا تھا۔ بیگم نصرت بھٹو نے بھی لیاری میں مرتضی کی حمایت میں انتخابی جلسے کیے تھے ایک جلسے میں اس نے لوگوں سے کہا تھا اگر انہوں نے اسکے اور بھٹو کے پگدار بیٹے کو ووٹ نہیں دیا تو اپنا ہاتھ بجلی کے کرنٹ میں دے دیں گی۔ پھر بھی مرتضی لیاری سمیت تمام نشستوں سے ہار گیاتھا۔ سوائے لاڑکانہ سے صوبائی اسمبلی کی نشست کے۔

مجھے یاد ہے کہ ان دنوں جب آصف زرداری دوسری بار بھی لیاری سے ایم این اے جیل سے منتخب  ہوئے تھے تو میں لیاری میں پانی کی شدید قلت پر ایک اسٹوری کرنے اپنی ساتھی صحافی کے ساتھ لیاری میں گیا تھا جہاں گلیوں میں ٹخنے ٹخنے نالیوں کا پانی گلیوں میں بھرا تھا اور بینظیر بھی کچھ روز قبل وہاں جلسہ کر گئی تھی۔ ان۔ گلیوں میں ہم نے دیکھا تو لوگوں میں پانی کی قلت پر اپنے ایم این اے آصف زرداری پر غصہ بہت تھا۔ تو اس پر میری ساتھی صحافی نے ایسی شکایت کرنیوالی اس خاتون سے پوچھا “اماں وہ آپ لوگوں کو پانی کیسے فراہم کرتا۔ وہ تو خود جیل میں تھا”۔ تو اس پر اس خاتون نے کہا” کہ وہ جیل میں بچہ پیدا کرسکتا تھا پرہم لوگوں کو پانی نہیں دے سکتا تھا؟”۔

عبدالرحمان بلوچ کا لیاری کے لوگوں میں تصور “سخی لٹیرے” جیسا تھا۔ بلکہ علاقے کے کونسلر بھی اسکی مرضی سے چنے جاتے تھے۔ یہ تب دیکھا گیا جب 2008 کے انتخابات میں وفاقی اور سندھ سطح پر جیت کر آنے کے بعد آصف زرداری ملک کا صدر اور پی پی پی کی سندھ میں بنائی جانیوالی حکومت میں ذولفقار مرزا سندھ کا وزیر داخلہ بنا ۔ عبدالرحمان بلوچ کو آصف زرداری سے ملوانے والے دو میں سے ایک بتائے جاتے ہیں یوسف بلوچ یا خالد شہنشاہ نے رحمان بلوچ کو آصف زرداری سے ملوایا تھا۔ انکی ٹاسک کراچی ویسٹ اور جنوب کے علاقوں سے ایم کیو ایم الطاف کے عسکری ونگز کو ختم کرنا تھا۔

ذوالفقار مرزا نے وزیر داخلہ کی حیثیت سے لیاری کے لڑکوں کو ہزاروں کی تعداد میں اسلحہ کے لائسنس جاری کیے۔ سنگھولین میں سلیمان بروہی جس کا ذکر کتاب “بازار حسن سے پارلیمنٹ تک “میں بھی ہے کے گھر پر اب رحمان بلوچ کا قبضہ تھا اور وہاں عزیر بلوچ کی نگرانی میں سٹے کا اڈا قائم ہوا تھا۔ عزیر بلوچ ہی اس سٹے کے اڈے کا نگران تھا۔ یہی دن تھے جب لیاری کے علاقے کے نوجوانوں جنہوں نے اس سے پہلے منشیات کے کاروبار سے نوجوانوں کی جان چھڑوا کر اس جگہ افشانی گلی اور سنگھو لین وغیرہ میں منشیات کے اڈوں کی جگہ پر نائیٹ اسکول بھی کھولے تھے۔ لیکن اب ایک بار پھر منشیات کے کاروبار سمیت یہ گینگز ابھر رہے تھے۔

مجھے ایسے ہی گینگ کے ابھرنے کے شروع والے دنوں متعلق ایک مقامی سماجی کارکن نے فون پر بتایا کہ کہ جب وہ متعلقہ تھانے پر اسکی شکایت لیکر گئے تو تھانیدار کے پاس کرسیوں پر منشیات فروش اور دادا لوگ ارشد پپو ار اسکا باپ لال محمد لالو “معززین” کی حیثیت میں بیٹھے ہوئے تھے۔ اورہم فریادی کھڑے ہوئے تھے۔ رحمان بلوچ کی گینگ میں ایک اور کردار میں داخل ہوا جو علاقے کا زبردست ڈانسر تھا عبدالجبار جینگو۔ عبدالجبار جینگو پھر موٹر سا ئیکل حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ ایک مقامی صحافی کے مطابق وہ جب گینگسٹر بنا اپنے شکار کو ڈانس کرتے ہوئے پستول سے نشانہ بناتا تھا

۔(جاری ہے)۔

لیاری کے ڈان : شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک۔قسط دوم

لیاری کے ڈان : شیرک دادل سے عزیر بلوچ تک۔قسط اول

Comments are closed.