لویہ جرگہ ۔ افغانستان کے بحرانوں کے حل کی کنجی

محمدحسین ہنرمل

افغانستان کو جرگوں کا ملک کہاجاتاہے کیونکہ جرگہ افغانوں کے ہاں اس جمہوری عمل کانام ہے جس کے ذریعے افغان کئی صدیوں سے اپنے سیاسی ، سماجی اور ریاستی معاملات حل کرتے آئے ہیں۔ بنیادی طور پرجرگے دو طرح کے ہوتے ہیں،یعنی لوکل اور زیریں سطح کے معاملات کونمٹانے کیلئے چھوٹاجرگہ جبکہ قومی سطح کے مسائل کے حل کیلئے’’ لویہ جرگہ‘‘(گرینڈجرگہ) بلایاجاتاہے۔

لویہ جرگہ میں وسیع پیمانے پرافغان وطن کے علماء ، سیاستدان ، قبائلی عمائدین اور دانشور ایک معاملے کا سنجیدہ اور پائیدار حل نکالنے کیلئے اس میں حصہ لیتے ہیں اور اپنی تجاویز دیتے ہیں۔افغانستان میں یوں تو لویہ جرگہ بلانے کا رواج پہلے بھی تھاتاہم معلوم حکومتی اسنادکے مطابق ملک میں پہلارسمی لویہ جرگہ احمد شاہ ابدالی نے 1747 ء میں اس وقت بلایاتھاجب وہ نادرشاہ افشار کے قتل کے بعد کندہارلوٹ آئے تھے۔

کہاجاتاہے کہ یہ جرگہ نو دنوں تک جاری رہااور اس کو کئی حوالوں سے تاریخی لویہ جرگہ کہاجاتاہے کیونکہ ایک تو اس جرگے کی وساطت سے احمد شاہ ابدالی افغانستان کے حکمران منتخب ہوئے تھے ، دوسرا یہ کہ اس جرگے میں باہمی مشاورت سے افغانستان ایک آزادریاست کے طور پربھی ڈکلیئر ہواتھا ۔پہلی برٹش افغان جنگ کے زمانے 1841ء میں بھی لویہ جرگہ کی ضرورت محسوس کی گئی تاکہ افغان قوم کو انگریزوں کے خلاف مزاحمت پر آمادہ کیا جائے ۔

اسی طرح امیرشیر علی خان نے 1865ء میں اپنی سلطنت کے خلاف اپنے باغی بھائیوں کے خلاف لائحہ عمل طے کرنے کیلئے لویہ جرگہ بلایاتھا۔ 1893 ء میں برطانیہ نے ہندوستان میں جب افغانستان کے کچھ علاقے ضم کرنے کیلئے ڈیورنڈنامی لکیر کھینچی تواسی وقت کے افغان حکمران امیرعبدالرحمن خان نے انگریزوں کے اس فیصلے کی عوامی تائید بخشنے کیلئے بھی لویہ جرگہ بلایاتھا۔1914میں پہلی جنگ عظیم شروع ہوئی تو اس وقت امیر حبیب اللہ خان افغانستان کے حکمران تھے۔جرمنی اور ترکی کے ایک وفدافغان حکومت سے انگریزوں کے خلاف لڑنے کی درخواست کی ۔

امیرافغانستان نے لویہ جرگہ بلاکر لوگوں کی رائے لی جس میں بالآخر افغانوں نے اس جنگ میں غیر جانبدار رہنے کافیصلہ کرلیا۔تقسیم ہند کے اگلے سال ڈیورنڈلائن کے مسئلے پر جب پاکستان اور افغانستان کے بیچ تعلقات کشیدہ ہوئے تو اس دوران لویہ جرگہ نے نہ صرف انگریزوں اور افغانستا ن کے درمیان 1893 کے معاہدے کولغو قرار دیا بلکہ دوسری اینگلوافغان وار کے دوران ہونیوالے 1905کامعاہدہ ،اور 1919کے راوالپنڈی معاہدے کو بھی اس جرگے نے لایعنی کردیا۔اسی طرح اپنے دورسلطنت(1919-1929)کے دوران انقلابی حکمران غازی امان اللہ خان کی طرف سے ملک میں نئی اصلاحات کے نفاذ کیلئے بھی لویہ جرگہ کاسہارا لیاتھا۔بعدمیں شاہ نادرخان نے1930میں، محمد ظاہر شاہ نے 1965میں ، سردار محمد داود خان نے 1977میں،ببرک کارمل نے 1971میں حسب ضرورت وقتاًفوقتاً لویہ جرگہ بلایا۔

اسی طرح 1987میں لویہ جرگہ ہی کے فیصلے کی روشنی میں افغانستان کا اساسی قانون تصویب ہونے کیساتھ ساتھ ڈاکٹرنجیب اللہ افغانستان کے صدر بھی منتخب ہوئے۔نائن الیون واقعے کے بعدبُون کانفرنس کی روشنی میں بھی ایک عبوری حکومت کے قیام اور صدرکے انتخاب کیلئے ہنگامی طور پر لویہ جرگہ بلایاگیاجس کے نتیجے میں حامدکرزئی افغانستان کے صدر منتخب ہوئے۔ صدر حامد کرزئی نے جب 2010 میں امن پروگرام شروع کیاتو عوامی تائید حاصل کروانے کیلئے انہوں نے لویہ جرگہ کنڈکٹ کیاجس کو بہت سے لوگوں نے فرمائشی اور غیرقانونی لویہ جرگہ سے تعبیر کیا۔

سب سے آخری لویہ جرگہ چندروز پہلے سات اگست کوافغا ن صدر اشرف غنی حکومت نے بلایاتاکہ طالبان کے چار سو قیدیوں کی رہائی کے مسئلے کوباہمی مشاورت سے نمٹایاجاسکے۔سات سے نواگست تک جاری رہنے والے اس سہ روزہ لویہ جرگے میں لگ بھگ تین ہزار چار سو مندوبین نے شرکت کی ۔جرگے کے اختتام پرباقاعدہ اعلامیہ جاری ہوا جس میں شرکاء نے افغان حکومت اور افغان طالبان سے پچیس شقوں پر عمل درآمدکروانے کی سفارش کی ہے ۔مثلا جرگے نے باقی ماندہ طالبان قیدیوں کی رہائی کی تائید کی ہے اور ساتھ ساتھ دونوں فریقوں سے فوری طور پرسیزفائریقینی بنانے کا مطالبہ کیاہے۔

اعلامیے میں افغانستان کے دونوں فریقوں کو باہمی مذاکرات سے حل کروانے، ملک میں خواتیں کو انسانی اورسیاسی حقوق فراہم کرنے، مریکہ سے اپنے وعدوں کو ایفاکرنے اوربین الاقوامی برادری سے امن کے عمل میں سہولت کارکاکردار اداکرنے اور ہمسایہ ممالک سے افغانستان میں مداخلت نہ کرنے کا مطالبہ کیاہے۔ جرگے نے اساسی قانو ن میں بوقت ضرورت عدلیہ کے ذریعے ترامیم کروانے، حکومت سے جرگے کی مشاورت سے بھرپورفائدہ اٹھانے اور بین الافغانی مذاکرات کو افغانستان میں ہی منعقد کروانے کی تجاویز دیئے ہیں،وغیرہ ۔

میں سمجھتاہوں کہ افغانستان کے مستقبل کے حوالے سے لویہ جرگہ منعقد کرکے حکومت نے ایک بہترین جمہوری طریقے کا انتخاب کیاہے۔ مثلاًطالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے کو لویہ جرگہ اور عوام کے سپرد کرکے حکومت نے ایک طرف ان افغان خاندانوں کے تحفظات سے بھی خودکو بری الذمہ کردیا جن کے پیارے مذکورہ قیدیوں کی طرف سے ہلاک ہوئے ہیں یا مالی نقصانات اٹھائے ہیں۔جبکہ دوسری طرف اس جرگے کے ذریعے حکومت یہ اشارہ دیناچاہتی ہے کہ مستقبل میں بھی ملک کے پیچیدہ مسائل کولویہ جرگہ ہی کے فلیٹ فارم سے نمٹانا ناگزیر ہے۔

لویہ جرگہ ہی وہ عوامی فلیٹ فارم ہے جس کے فیصلوں اور تجاویز کا اگرکوئی فریق بھی مخالفت کرے گا تو اس کا مطلب پوری افغان قوم کی رائے کی مخالفت تصور کی جائے گی۔ یہ جرگے ہی کا کمال ہے کہ حکومت نے طالبان کے باقی ماندہ قیدیوں کی رہائی کا حکم نامہ صادر کیااورفریقین ایک ہفتے کے اندراندربین الافغان ڈائیلاگ شروع کرنے پررضامندہوئے ہیں۔

جرگوں کے اس ملک میں جرگے کے جمہوری عمل کواگر مستقبل میں بھی سنجیدہ لیاگیاتو میرا یقین ہے کہ افغانستان اس خطے کا پرامن اور خوشحال ملک بن جائے گا ۔ خدا کرے کہ عنقریب شروع ہونے والے بین الافغان مذاکرات کے نتائج مثبت اور حوصلہ افزاء ہو۔آمین

Comments are closed.