مولانا رومی کا پیغام محبت، جہاں تک پہنچے

 بیرسٹرحمیدباشانی

ہم علم وشعورکے دورکے لوگ ہیں۔ ہمارے دورکا انسان سائنس اورسماجی علوم کی معراج پرتو نہیں،  لیکن اس میدان میں حیرت انگیزترقی ضرورکرچکا ہے۔  وہ اب ستاروں پرکمند ڈال رہا ہے۔  نئے سیارے ڈھونڈ رہا ہے۔  اورنئی دنیا کی تلاش میں خلانوردی کررہا ہے۔مگربد قسمتی سے ایک طرف جہاں ہمارے ارد گرد تیزی سےعلم وشعوربڑھ رہا ہے، وہاں دوسری طرف جہالت تعصب، تنگ نظرقوم پرستی، نسل پرستی اورفرقہ واریت بھی اسی رفتار سے بڑھ رہی ہے۔

 مغرب میں بہت پہلے چرچ کا سیاست سےلاتعلق ہونے کے بعد سیاست میں مذہب کا کرداربہت حد تک کم ہوگیا ہے۔ مگر ہمارے ہاں صورت حال اس کے برعکس ہے۔  ہمارے ہاں مذہب میں سیاست کا کرداردن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ اس وجہ سے اسلامی دنیا میں مذہبی بنیادوں پرگروہی اورفرقہ وارانہ تضادات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

کئی ایک اسلامی ممالک کے داخلی حالات اورخارجہ تعلقات فرقہ وارانہ رحجانات اورنظریات کے تابع ہوتے جا رہے ہیں۔  مختلف اسلامی ریاستوں کے درمیان خوشگوار یا ناخوشگوارتعلقات کے پس منظرمیں فرقہ وارانہ نظریات اورعقائد ایک نمایاں کردارادا کررہے ہیں۔

 داخلی سطح پرکئی اسلامی ممالک کے اندرمذہبی فرقہ واریت کا چیلنج بڑھ رہا ہے۔  فرقہ وارانہ فسادات اورتصادم عام ہیں۔  مگر ان ممالک کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان کے اندر بڑھتے ہوئے انتہا پسندانہ رحجانات ہیں ، جن کی وجہ سے حالیہ عشروں کے دوران مختلف اسلامی ملکوں میں دہشت گردی کی ایک لہر سی اٹھتی ہوئی دکھائی دی۔  کئی جگہوں پراس کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سخت حکمت عملی اپنا کردبا دیا ، اس کے باوجود کہیں کہیں یہ چنگاری اب بھی موجود ہے، اور اندرہی اندرسلگ رہی ہے۔

  اسلامی ملکوں جہاں مذہب کے نام پر نفرت اور تنگ نظری بڑھی ہے، وہاں مغرب میں یہ کام تنگ نظرقوم پرستی اورنسل پرستی کے نام پر ہوا ہے۔مغرب کی سیاسی و سماجی زندگی میں آئے دن اس کے مظاہرے نظرآتے ہیں۔ کئی ممالک میں تنگ نظرقوم پرستی کے نام پر نسل پرست زینوفوبسٹیعنی اجنبیوں سے خوفزدہ جماعتیں مقبول ہو رہی ہیں۔جس کی وجہ سے مغرب ومشرق کے درمیان مختلف تنازعات وتضادات ابھررہے ہیں، جن کو ماضی میں کچھ مغربی دانشوروں نے تہذیبوں کا تصادم قراردیا۔

  اس مغالطے کو طارق علی نے واضح کیا کہ یہ تہذیبوں کا نہیں بنیاد پرستی کا تصادم ہے ۔بنیاد پرستوں کی لڑائی کوتہذیبوں کا تصادم قرار دینے والے ان لوگوں کو خیالات کو تقویت دیتے تھے، جن کی رائے تھی کہ دنیا جس پاگل پن کی راہ پرچل نکلی ہے، اس کو تباہی وبربادی کی اسی راہ پرچلتے رہنا چاہیے۔لیکن بے شمار لوگ ایسے بھی تھے، جنہوں نے دشمنی اور تعصب کے اس ماحول میں دنیا کی مختلف تہذیبوں اورمذاہب کے درمیان محبت اورامن کا پیغام ڈھونڈنے کی کوشش کی۔   یہ لوگ اس کوشش میں کامیاب رہے اورنفرت اورتنگ نظری کے اس ماحول میں جلال الدین محمد رومی کو مغرب میں ایک شاعراوردانشور کے طورپرمتعارف کرایا؛ چنانچہ اپنی موت کے سات سوسال بعد مولانا روم محبت کا پیغام لے کرابھرے، اورامریکہ میں ایک مقبول شاعر بن گئے۔

 مولانارومی کو ایران، پاکستان اورترکی وغیرہ میں بھی بہت پڑھا گیا۔ یہ الگ بات ہے کہ سمجھے بغیرپڑھا گیا۔  یا پھر پڑھ کر بھلا دیا گیا۔ اوران ملکوں میں ان کی مقبولیت سمجھ میں آتی ہے۔ان علاقوں سے ان کا گہرا تعلق زبان ، مذہب اورجنم بھومی کا ہے۔ لیکن ان کی بے پناہ مقبولیت کی ایک نئی منزل ریاست ہائے متحدہ امریکہ ٹھہری۔ اس مقبولیت کا ذکر کرتے ہوئے لکھاری ولیم ڈالریمپل نے کہا تھاگیارہ ستمبر کے بعد کی بن لادن کی دنیا اورتہذیبوں کے اس تصادم کی دنیا میں یہ بات ناقابل یقین ہے۔

مگر یہ حقیقت ہے کہ نوے کی دھائی میں امریکہ میں مقبول ترین شاعرربرٹ فراسٹ، ربرٹ لویل ہیلیپ، شکسپیئر، ہومر، دانتے یا کوئی یورپی شاعرنہیں تھا،  بلکہ یہ ایک کلاسیکل مدرسوں کا تربیت یافتہ مسلمان مولوی مولانا رومی تھا۔  یہ بات صرف امریکہ تک محدود نہیں۔  ایک اورمغربی لکھاری براڈ گوش، جس نے رومی کی سوانح لکھی ہے، کہتا ہے کہ رومی کی زندگی کا نقشہ دوہزارپانچ سومیل پرپھیلا ہوا ہے۔  وہ محبت اورخوشی کا شاعر ہے۔  گوش لکھتا ہے میں نے ایک بارامریکہ میں ایک گاڑی کے بمپر پر ایک سٹکر دیکھا جس پر لکھا تھا اچھائی اور برائی کے درمیان ایک جگہ ہے، میں تمہیں وہاں ملوں گا۔

سنہ 1976میں ایک امریکی شاعررابرٹ بلائی نے کولمین بارکس کو رومی کی آکسفورڈ کی ترجمہ کردہ شاعری دکھاتے ہوئے کہا کہ اس کلام کو پنجرے سے نکالنے کی ضرورت ہے۔  بارکس نے رومی کی شاعری کوامریکن طرز کی آزاد شاعری میں ترجمہ کر کے اسے پنجرے سے نکال دیا۔  اس وقت سے لیکر اس کے پچیس سے زائد ایڈیشن چھپ چکے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ رومی پردوسری کتابیں جیسا کہ رومی کے ساتھ ایک سال، رومی کے باپ کی روحانی ڈائری اوربڑی لال کتاب جیسی کتب سمیت اب تک دوملین سے زائد کاپیاں چھپ چکی ہیں، اوران کا تئیس سے زائد زبانوں میں ترجمعہ ہوچکا ہے۔

اسلامی دنیا میں رومی کی مقبولیت کسی بیان کی محتاج نہیں۔  جاوید مجددی ایک انعام یافتہ مترجم ہے، جس نے رومی کا ترجمہ کیا۔ اس نے صوفیانہ خیالات کو شاعرانہ اندازمیں ڈھالنے کواس کی مقبولیت کی وجہ قرار دیا۔  اس کے خیال میں رومی کی مقبولیت کی کئی وجوہات ہیں۔  ایک وجہ رومی کا عوام سے براہ راست مخاطب ہونا ہے۔ عوام نے اس بلاواسطہ تخاطب کو پسند کیا۔  دوسری وجہ ان کا پیغام ہے، جس کی وجہ سے الہامی و کشفی ادب کے قاری اس کی طرف کھنچتے ہیں۔  تیسری وجہ ان کی روزمرہ کی تشبہیات وسماں بندی ہے، اورچوتھا ان کا وحدت کا تصور ہے۔ مجددی نے رومی کی مثنوی کا ترجمہ کیا ہے، جس کو اس نے دنیا میں شاعری کا طویل ترین کام قرار دیا۔

سن2017میں ہالی ووڈ کے آسکرایوارڈ یافتہ سکرین رائٹرڈیوڈ فرینزونی نے جلال الدین رومی پرفلم بنانے کا فیصلہ کیا۔  فرینزونی اس سے پہلے گلیڈی ایٹرجیسی کامیاب بلاک بسٹرفلم لکھ چکا تھا۔ اس نے سٹیفن جوئل براون جیسے پروڈیوسرکے ساتھ مل کرمغربی سینما میں مولانا جلال الدین رومی کی اصل تصویرپیش کرنے کا اعلان کیا۔اس نے کہا رومی شکسپئرکی طرح ہے ، جوامریکہ میں انتہائی مقبول ہے۔اس کی ایک پہچان ہے، اوراس کی ایک کہانی ہے، جو لوگوں تک پہنچنی چاہیے۔

فرینزونی اوربروان کا خیال تھا کہ رومی کا کردار لیونارڈوڈیکیپریواورشمس تبریزی کا کرداررابرٹ ڈاونی جیسے اداکارہی کرسکتے ہیں۔  فرینزونی نے کہا کہ فلم کی کہانی رومی کی بچپن کی ہجرت سے شروع ہو گی،  جو اس کے خاندان نے منگول حملے کے خوف سے کی۔مگر فلم کا مرکزی خیال رومی کی تعلیمات اورشمس تبریزی کے ساتھ ان کا تعلق ہی رہے گا۔  اس وقت فرینزونی نے رابرٹ براون کے ساتھ استنبول کا دورہ بھی کیا تاکہ رومی کے بارے میں مزید مواد جمع کیا جائے۔

 اسلامی بنیاد پرستوں اوررجعت پسندوں نے مغربی سکرپٹ رائٹراورپروڈیوسرکی طرف سے مولانا روم پرفلم بنانے کے اس خیال کوسخت نا پسند کیا۔  ان کا خیال تھا کہ مغربی فلمسازرومی کی جو تصویر پیش کریں گے وہ ان کی پسندیدہ تصویرسے مختلف ہو گی۔  چنانچہ اس خیال کے خلاف جو کام شروع ہوا اس میں ترکی اورایران کی حکومتوں سے یہ مطالبہ بھی تھا کہ وہ سرکاری سطح پررومی کے بارے میں فلم بنائیں تاکہ اس کے ذریعے رومی کی دل پسند تصویرپیش کی جائے۔  ترکی اورا یران نے مشترکہ طورپرمولانا روم پر فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس کا انجام کیا ہوا ؟  سب جانتے ہیں۔

رومی غالبا انسانی تاریخ کا واحد شاعر ہے، جواپنی موت سے سات سو برس بعد بھی اپنے پڑھنے والوں کومتاثر کرتا ہے۔ امریکہ میں ان کاشمارتاریخ کے مقبول ترین شاعروں میں ہوتا ہے۔  وہ امریکہ کے سب سے زیادہ بکنے والے شاعروں میں شامل ہیں۔ان کا کلام شادیوں کی تقریبات میں سنایا جاتا ہے۔  لوگ اس پرناچتے ہیں ۔ بروکلین کے تہہ خانوں میں موسیقاراورگلوکاریہ کلام پیش کرتے رہتے ہیں۔  یہ کلام انسٹاگرام پر بھی گردش کرتا رہتا ہے، اورنوجوانوں میں بھی بے حد مقبول ہے۔

مولانا جلال الدین رومی کی شاعری کی اس بے پناہ مقبولیت کی وجہ اس شاعری میں موجودپیغام محبت ہے۔  یہ انسانیت سےمحبت کا پیغام ہے۔  یہ محبت رنگ نسل اورعقیدے سے بالاہے، اورہرقسم کے تصبات سے پاک ہے۔ اس پیغام  محبت کو ہمارےہاں پھیلانے کی ضرورت سب سے زیادہ ہے۔

Comments are closed.