امن کی آشائیں یا نراشائیں

حسن مجتبیٰ

اگر میرے جیسے شخص سے بھارت اور پاکستان کے درمیان امن کا پوچھیں تو میں تو اس حد تک جانے کا قائل ہوں کہ اگر برلن دیوار گرنے کے بعد دو جرمنیوں مشرقی اور مغربی کی ری یونفیکیشن یا ازسر نو ادغام ہو سکتا ہے تو پاکستان اور انڈیا کے بیچ بھی یہ دھوکے کی دیوار کیوں نہیں گر سکتی؟

لیکن دونوں اطراف کی فوجیں اور حکومتیں ہیں کہ ان کے اندر میں ان دیواروں کو اور بھی بلند کیے جارہی ہیں جیلوں کی دیواروں سے بھی بلند، اتنا بلند اور اپنے تئیں ناقابل تسخیر کہ اس کے لیے انہوں نے نقلی امن تحریکیں بھی بنائی ہوئی ہیں۔ یعنی کہ جنگ رہے اور امن بھی ہو۔ امن کی آشا نام کی نراشا بھی ایسی ہی نقل کا نام ہے، جسے پاکستان کی فوج اور اسکی طاقتور ایجنسی آئی ایس آئی نے بنوایا تھا ۔

بالکل ایسے جیسے سرد جنگ کے زمانے میں تمام کمیونسٹ بلاک کو “پیس کیمپ” کہا جاتا تھا۔ یعنی کہ جوزف استالین نے کوئی تیس لاکھ کےقریب اپنے ہی لوگوں کو بھوکوں مار دیا لیکن تھا وہ سابقہ سوویت یونین اور اسکا بلاک “امن کیمپ”۔ مذاق نہیں کہ امن کی آشا بھی ایسی ہی نراشا کا نام ہے۔ یعنی کہ بظاہر وہ میڈیا ہاؤس جس کا نام “جنگ” ہے، اور جس نے چھ دہائیاں دونوں ملکوں کے درمیان پاکستان اور بھارت کے درمیان اسکی فائیلیں اٹھاکر دیکھو امن دشمنی میں جنگی جنون اور ہتھیاروں کی دوڑ کو اور بھی ہوا دینے کے درپے اپنا کریہہ کردار ادا کیا ہے اسکی اس “امن کی آشا” میں اب سرمایہ کاری جاری ہے۔

اب دیکھیں ان میں اب پہلے پہل امتیاز عالم کے ذریعے سیفما کے پلیٹ فارم سے جیو یا جنگ گروپ والوں نے سارک کے نام پر پاکستان ہندوستان امن امن کھیلا۔ اس میں بھارت سے اسوقت کے بھوپال کے لفٹیننٹ گورنر اور جن سنگھی سندھی ادیب ،بی جے پی کے ایک تھنک ٹینک کیولرام ملکانی یا کے آر ملکانی کو بھی ایک خاص مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔

ملکانی صاحب اس میں کوئی شک نہیں کہ انتہائی ایک شریف انسان اور “سندھ اسٹوری” جیسی کتاب کے مصنف تھے لیکن وہ تھے آدی بنیادی ما قبل تقسیم سندھ سے ہی سنگھ پریوار کے پریورتن۔ سندھ بھلے صوفیوں سنتوں درویشوں کی بلاشبہ سرزمین ہے لیکن اسکے ساتھ وہ آر ایس ایس کا دوسرا گھر بھی رہا ہے۔ چلو اس پر پھر کبھی سہی کہ یہ ایک اور بادشاہی کا قصہ ہے۔

ایک دفعہ وہ واشنگٹن ڈی سی میں سندھی کانفرنس میں بھی خاص مہمان کے طور پر بلائے گئے تھے اور میرے دوست صوفی لغاری کے زبردست دوست بھی تھے۔ میں نے ملکانی صاحب کو انکے بی جے پی میں ایڈولف آڈوانی کیساتھ ہونے پر آڑے ہاتھوں لی لیا تھا اور میرا خیال تھا اور اب بھی ہے کہ ہندوستان میں انتہاپسند پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں سندھی ہندوؤں کیساتھ انتہاپسند اور آئی ایس آئی والے و دیگر ایسے محکمے انتہائی زیادتیاں کرتے ہیں۔

کیونکہ جب بھی بی جے پی ہندوستان میں اقتدار میں آئی ہے تو سندھ میں تھر میں ہندوؤں کی غیر منقولہ املاک کی قیمتیں گری ہیں کیونکہ لوگوں کو یقین ہوتا ہے اب کے پھر ہندو نقل وطنی کر جائیں گے۔ اسکے کچھ سالوں بعد سندھ کے ٹنڈو جان محمد میں نوجوان ہندو انجنئیر گریش کمار قتل ہوگیا تھا ۔ اور اس ہندو نوجوان کے لشکر طیبہ والوں نے جو کہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی کے قتل کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسکی “وجہ” یہ بتائی تھی کہ کشمیر میں مسلمانوں سے زیادتیوں کا بدلہ اس بیگناہ ہندو نوجوان سے لیا تھا۔

میں نے اس پر امن کی آشا کا ڈھنڈورا پیٹنے والے “جیو” سے لیکر تمام پاکستانی چینل اور اخبارات کنگھال ڈالے تھے لیکن کہیں بھی گریش کمار کے قتل پر امن کی آشا بھوسلوں کا کوئی بیان نہ سنا یا دیکھا تھا۔ اسی طرح کراچی کی فیکٹری میں ایک خوش شکل ہندو نوجوان کی فیکٹری میں ایک ساتھی کارکن لڑکی سے بات چیت پر حسد میں اس ہندو لڑکے پر توہین مذہب کا الزام لگا کر اسے ہجوم میں قتل کیا گیا۔

اس ہجوم کے ہاتھوں قتل کیے گئے ہندو نوجوان کے قاتل جس میں سنی تحریک کے کارکنان ہری پگڑی واالے ملوث تھے کی مذمت میں کوئی بیان امن کی آشا والوں کا دیکھا لیکن کوئی نظر میں نہیں آیا۔ اور نہ ہی26 نومبر کو ممبئی دہشت گردی پر امن کی آشا بھوسلاؤں کی کوئی سرگرمی۔

حالانکہ نیویارک بروکلین کی وفاقی عدالت میں نیویارک میں رہنے والے ممبئی میں اسی دہشت گردی میں مارے والے یہودیوں کے قتل کا اوّل مقدمہ انکے لواحقین نے پاکستان کی آئی ایس آئی کے خلاف دائر کیا تھا کہ بقول انکے لشکر طیبہ کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ تھا۔ لیکن امن کی آشا کا اس پر بھی کوئی دور دور تک نشان نہیں تھا۔نہ مذمت نہ کوئی وجہ نہ نشان کہ یہ خون خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا۔

اسی طرح اب دیکھیں نہ سندھ، بلوچستان، خیبر پختونخواہ اور اس میں بھی وزیرستان اور پنجاب خاص طور ُاوکاڑہ ملٹری فارم کے مزارعین اور گلگت بلتستان لیکن امن کی آشا نے ان علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر جن میں کراچی سمیت ہزاروں نہیں تو سینکڑوں شہری فوجی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں لاپتہ یا جبری اغوا کا شکار ہیں لیکن امن کی آشا خود لاپتہ ہے کہ اسکا جنم بھی ایسی بے آواز آوازوں کو زائل کرنے کو کیا گیا تھا۔

جب بھی اس طرح کی حق تلخیاں خود اپنے صوبوں اور اپنے لوگوں کیساتھ ہوں تو جموں کشمیر کا نعرہ بلند کرو کیونکہ جیسے سندھی بڑے شاعر شیخ ایاز نےاس طرح کے بابو انقلابیوں کے لیے کہا تھا وہ اس لیے کہ شومبے کی گولی تم سے دور ہے اور یہ تمہارے لیے یہ آسان ہے کہ کانگو کا ماتم کراچی میں بیٹھ کر کر رہے ہو۔ تو بلوچستان، کراچی سمیت سندھ ،وزیرستان سمیت خیبر پختونخواہ اور ا وکاڑہ ملٹری فارمز سمیت پنجاب ان امن کی آ شا بھونسلیوں سے دور ہے اور جموں وکشمیر نزدیک!۔

اسی لیے تو میں نے کل عرض کیا تھا کہ پاکستانی لبرل ایلیٹ دانشور اوردانشورنیاں بڑا سیف کھیلتے ہیں کشمیر پر تو رودالیاں بن جاتے ہیں لیکن سندھ بلوچستان پختونخواہ وزیرستان اوکاڑہ پر انکی پھٹتی ہےکہ اس سےصبا دشتیاری ،حسن ظفر عارف اورمہر عبدالستار بننے کاخطرہ ہوتا ہے۔ اسی کو تو امن کی آشا کہتے ہیں۔

میں نے دیکھا کہ سرحدوں کے دونوں پار مہاراجوں، راجپوتوں جاگیرداروں کے بچوں کے درمیان شادی کو تو امن کی آشا بڑے طمطراق سے شائع کرتی ہے لیکن پاکستان کے سندھ صوبے میں سینکڑوں ہندو لڑکیوں اور بچیوں کی جبری بذریعہ زبردستی تبدیلی مذہب شادیوں پر چپ رہتی ہے۔ یہ امن کی آشا نہیں نراشا ہے۔ اس امن کی آشا میں دیپ سیدہ اور فہمیدہ جیسے لوگ کبھی نہیں اٹھائے جاتےکہ وہ سخت ایسٹیبلشمنٹ مخالف ہیں نہ بلوچ گمشدہ نوجوانوں کی ماؤں کا مسئلہ۔

Comments are closed.