کیا ترکی مسلم امہ کا نیا لیڈر بن پائے گا؟

بیرسٹرحمیدباشانی

ہماراعہد دنیا میں بڑی تبدیلیوں کاعہد ہے۔ ایک بڑی تبدیلی عالمی سیاست میں رونما ہورہی ہے۔دنیا میں نئی صف بندیاں ہورہی ہیں۔یونی پولردنیا ملٹی پولردنیا کی شکل اختیارکررہی ہے۔سیاسی اور معاشی افق پرنئی بڑی علاقائی اورعالمی طاقتیں ابھررہی ہیں۔ کچھ پرانی بڑی طاقتوں کا سورج غروب ہورہا ہے۔ 

یہ ایک تیزرفتاراورہنگامہ خیزدورہے۔ ایسے دورمیں حکمران اشرافیہ اوران کے اردگرد منڈلاتے دانشوروں اورتجزیہ کاروں کا کام ہوتا ہے کہ وہ حالات کا ادراک کریں، اورقوموں و ملکوں کی درست سمت میں رہنمائی کریں۔تبدیلیوں کے دورمیں جو نئےمواقع پیدا ہو رہے ہیں ان سے استفادہ کریں، جو خطرات ہیں ان کا تدارک کریں۔بدلتے حالات میں مستقبل کی حقیقی تصویردیکھیں اورمستقبل  کی صف بندیوں میں درست صفوں میں کھڑا ہونے کی کوشش کریں۔

 ہماری حکمران اشرافیہ اوربیشتردانشوروں کی روش مگراس کے برعکس ہے۔  وہ عوام کوخیالی باتوں میں الجھائے رکھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔  وہ ان کوعظمت رفتہ کے فرضی قصے سنا کرخود فریبی میں مبتلا رکھتے ہیں۔ عظیم ماضی کی روشنی میں عظیم مستقبل کے خواب دکھاتے رہتے ہیں۔

 آج کل اسی عظیم ماضیکی روشنی میں ایک نیاخواب دیکھایا جا رہاہے۔ خواب یہ ہے کہ مسلمانوں کا عظیم ماضی لوٹ کرآنے والا ہے۔  اوریہ عظمت رفتہ اب کی بارعظیم ترکی کی قیادت میں لوٹ کرآئے گی۔  یہ خواب سے بھی زیادہ ایک سازشی تھیوری ہے، مگریہ عوام اوردانشوروں کے ایک حلقے میں مقبول ہو رہی ہے۔

یہ جوخواب ہے،یہ اس طرح سنایا جاتا ہے کہ تین سال بعد سن 2023 میں معاہدہ لوزان ختم ہو جائے گا۔سازشی تھیوری کے مطابق اس معاہدے میں ایک خفیہ شق ہے، جس میں اس کے خاتمے کی تاریخ مقررہے۔  کسی کو معاہدہ پڑھنے کی توفیق و فرصت نہیں۔  کسی کو تصدیق وتردید کی حاجت نہیں ؛ چنانچہ ماضی کی ایسی بے شمارتھیوریوں کی طرح یہ تھیوری بھی مقبول ہورہی ہے۔

  اس تھیوری کا مرکزی خیال یہ ہے کہ اس معاہدے کی مدت ختم ہونے کےبعد ترکی ایک بہت بڑی اسلامی طاقت کے طور پرابھرنا شروع ہو جائے گا۔  یہ اپنے سمندروں سے تیل و گیس کے ذخائرنکالنا شروع کر دے گا۔  یہ باسفورس کا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لے کر یہاں سے گزرتے ہوئے لاکھوں بحری جہازوں سے ٹیکس وصول کرے گا،  اوردنیا کی بحری تجارت کا ایک بڑا حصہ اس کے ہاتھوں میں آ جائے گا۔ یہ یونانیوں سے اپنے جزائر واپس لے گا۔  یہاں معاشی ترقی اورخوشحالی کا ایک ابھار آئے گا، اوریہاں خلافت عثمانیہ یا سلطنت عثمانیہ کی طرز پرایک نئی اسلامی ایمپائرجنم لے گی۔اورترکی اسلامی وعرب دنیا کے واحد لیڈرکے طورپرایک بڑی طاقت بن کرابھرے گا۔

عظمت رفتہ اورعظمت فردا کے اس قصے کا مرکزی نقطہ معاہدہ لوزان ہے۔لوزان سوئٹزرلینڈ کا ایک خوبصورت اورپرسکون شہرہے، جس میں یہ امن معاہدہ چوبیس جولائی1923 میں ہوا تھا۔

اس معاہدے کا ایک فریق پہلی جنگ عظیم کی اتحادی قوتیں تھیں۔ ان اتحادی قوتوں میں فرانس برطانیہ، اٹلی، روس، جاپان، یونان اوررومانیہ وغیرہ شامل تھے۔ دوسرافریق سلطنت عثمانیہ یعنی ترکی تھا۔  یہ ایک طویل اورتفصیلی معاہدہ تھا، جس میں فریقین کے درمیان کئی امور پر اتفاق کیا گیا تھا۔

 اس معاہدے کی سب سے اہم ترین بات یہ تھی  کہ اس سےاتحادیوں اورترکوں کے درمیان تصادم ختم ہوا، اورامن کی طرف پیش قدمی شروع ہوئی۔  دوسری اہم بات یہ تھی کہ جدید ترکی کی سرحدوں کاتعین کیا گیا۔ اس کی رو سے جدید ترک ریپبلک نے سلطنت عثمانیہ کے زیرنگین کئی علاقوں اورجزائرپراپنا دعوی ختم کیا، اورجواب میں اتحادی قوتوں نے نئی سرحدوں کے اندرترکی کی خود مختاری کوتسلیم کیا۔ اس معاہدے کی رو سے ترکی سلطنت عثمانیہ کی وارث ایک جدید ریاست کے طورپرابھرا، اور ترکی کو ایک ریپبلک کے طورپرتسلیم کرکہ عالمی برادری کا حصہ بنایا گیا ۔

معاہدہ لوزان کے بارے میں ترک عوام ہمیشہ تقسیم رہے ہیں، اورتقسیم ہیں۔  کمال اتاترک کے حامیوں یعنی کمالسٹوں کا خیال ہے کہ جن حالات میں یہ معاہدہ ہواتھا، ان حالات کومد نظررکھتے ہوئے یہ ایک بہترین معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کی وجہ سے ترکی جنگ وجدل کا راستہ ترک کر کے امن و ترقی کے راستے پرگامزن ہوا۔

  دوسری طرف دائیں بازوں کی بنیاد پرست اور قدامت پسند قوتوں کا خیال ہے کہ یہ ایک بدترین معاہدہ تھا، جس کے ذریعے ترکی کے علاقے لے کراسکے حصے بخرے کردیے گئے۔ اس کے ہاتھ پاوں باندھ دیے گئے، اور اس کواس کی عظمت رفتہ سے محروم کر دیا گیا۔اس معاہدے کے خلاف سخت جذبات رکھنے والوں میں صدراردگان آگے آگے ہیں۔ ان کےخیال میں یہ معاہدہ غیرواضح اوریک طرفہ ہے۔ یا اگراس میں کبھی کوئی اچھی چیز تھی بھی تو اس کی اہمیت اورضرورت اب ختم ہو گئی ہے۔

 اب وقت آگیا ہے کہ ترکی دنیا کے سٹیج پر ایک اہم کھلاڑی کے طورپردوبارہ نمودارہو، اوراسلامی ایمپائرکا کردارادا کرے۔ اس عظیم اسلامی ایمپائرکی تھیوری یا نظریے میں اردگان کی شخصیت مرکزی ہے۔  وہ ایک ازحد پرعزم اورحریص طلب شخص ہیں۔جو لوگ انکوقریب سے جانتے ہیں،  ان کا خیال ہے صدارت کا طاقتورمنصب ان کے لیے کچھ بھی نہیں۔وہ اسے محض کہانی کا آغازسمجھتے ہیں۔وہ مصطفی کمال اتاترک سے بھی آگے جاکرطرح تاریخ بنانے اورکوئی بڑا معرکہ سرانجام دینے کی خواہش رکھتے ہیں۔  یا کم ازکم کچھ ایسا کرنا چاہتے ہیں کہ تاریخ انہیں اتاترک کے برابرلا کھڑا کرے۔مگراتاترک ترکوں کے لیے زندگی سے بھی بڑا کردار ہے۔  وہ ان کا ہیروہے، اورکئی ایک اسے انسان سے زیادہ دیوتا مانتے ہیں۔ اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ تاریخ کی درست سمت کھڑے تھے، اورتاریخ نے ان کو عزت بخشی۔

اردگان بھی اتاترک کی عظمت کے قائل ہیں۔  مگر ان کے نظریات خیالات اورویژن میں بہت فرق ہے۔ کمالسٹوں کے نزدیک اتاترک کا سب سے بڑا کارنامہ ریاست کو مذہب سےالگ کرنا تھا۔  مگراردگان مذہب کوریاست اورسیاست میں لانے کے خواہشمند ہیں۔  فی زمانہ وہ مذہب کی طاقت سے آگاہ ہیں، اورشاید اسےبطور ہتھیاراستعمال کرنےمیں کوئی قباحت نہیں سمجھتے ہوں، یا ان قباحتوں کی پوری آگہی نہ رکھتے ہوں۔ اس باب میں انہوں نے ترک قوانین، کلچراورطرززندگی میں کئی تبدیلیاں لانے کی کوشش کی ہے۔

گزشتہ کچھ عرصے سے ترکی میں جوادب تخلیق ہو رہا ہے، جس طرح کی فلمیں اورڈرامے بنائے جا رہے ہیں، یہ سب اس نئی پالیسی کا عکس ہیں۔  آیا صوفیہ کا معاملہ اس کی ایک بڑی مثال ہے۔اردگان صرف ثقافتی تبدیلی ہی نہیں، جغرافیے میں بھی بڑی تبدیلیوں کا خواہشمند ہیں۔ وہ ترکی کے ان علاقوں کوواپس لینا چاہتے ہیں، جوبقول ان کے معاہدہ لوزان کے تحت ناجائزطورپران سے لے لیے گئے تھے۔ اس سلسلے میں اردگان ترکی کا جو نقشہ یا جغرافیہ دیکھارہے ہیں اس کے تحت ترکی کی زمینی اورسمندری حدود یونان، بلغاریہ، ارمینیا، عراق اور شام میں اتنی اندرتک جاتی ہیں کہ ان ممالک کے لیے یہ نا قابل قبول ہے۔

 شام کے حالیہ قضیے میں ان کی مداخلت اسی سوچ کا اظہار تھی۔ اردگان کے بلندعزائم اورخواب صرف ترکی تک محدود نہیں رہے۔ وہ عرب دنیا اور اسلامی دنیا کی رہنمائی کے خواہشمند ہیں۔ان کے ساتھ مسلمان دنیا میں کئی مسلمان اپنے خوابوں کی تعبیردیکھتے ہیں۔حسب سابق اس معاملے میں شاید سب سے زیادہ جوش برصغیر کے مسلمان دکھائی دیتے ہیں ۔ یہاں کے مسلمانوں کا تاریخی طورپر ترکی سے عجب رومانس رہا ہے۔  ترک سلطنت تین براعظموں تک پھیلی تھی، مگر ہندوستان سے اس کا کوئی تعلق نہ ہونے کے باوجود یہاں کے مسلمان ترکوں کی سلطنت کواپنی ہی سلطنت سمجھتے رہے۔

خلافت کا تومعاملہ ہی دوسرا تھا۔  ترک جب خود خلافت کا خاتمے کا اعلان کررہے تھے توبرصغیر کے مسلمان اس پر ماتم کناں تھے۔یہاں کے مسلمانوں کا یہ المیہ رہا ہے کہ وہ اپنا کوئی خواب دیکھنے کے بجائے یا اپنی دھرتی سےاپنا کوئی ہیروڈھونڈنے کے بجائے ترکوں، افغانوں اورعربوں کے خوابوں کو ہی اپنے خواب سمھجتے رہے ہیں۔  یہی وجہ ہے کہ یہ اپنا کوئی خواب نہ بن سکے۔

 اردگان کے اگرسارے نہیں تو کچھ خوابوں کے پورے ہونے کے بڑے امکانات ہیں۔2023 میں معاہدہ لوزان کے سوسال پورے ہونے کے موقع پر سرکاری سطح پرترکی کی جوتصویردکھائی جا رہی ہے، اس کے مطابق ترکی دنیا کی دس بڑی معاشی طاقتوں میں شامل ہوجائےگا۔ یہ کورونا بحران سے پہلے کی بات ہے۔  کورونا کی وجہ سےممکن ہے اس تصویرپرتھوڑابہت فرق پڑے، لیکن کچھ خواب تو حقیقت کا روپ دھاریں گے۔

رہا سوال برصغیر کے مسلمانوں کا توان کے لیے بہترراستہ یہی ہوگا کہ وہ اپنےآسمان کے نیچے اوراپنی دھرتی کےاوپراپنےخواب دیکھیں ، جوان کےاپنےحالات سےمطابقت رکھتے ہوں۔ 

Comments are closed.