سان فرانسسکو کی ایک رات سان فرانسسکو کا ایک دن

حسن مجتبیٰ

یہ ملک فری نہیں، اسے فری بنانا ہے۔

سان فرانسسکو کے مشہور و مصروف ترین چوک ’یونین سکوائر‘ کی ایک داخلی سیڑھی پر احتجاجی نوجوانوں نے ایک بڑا سا بینر سجا رکھا تھا۔’ کیا تم بش اور چینی سے نجات نہیں چاہتے؟‘ اور یہ امریکہ میں صرف سان فرانسسکو جیسے شہر میں ہی ہو سکتا ہے۔

دن بہت خوشگوار تھا۔ ہوا میں سان فرانسسکو والی خنکی لیکن جاتی دو پہر کی دھوپ نے یونین سکوائر کا ایسا منظر بنا رکھا تھا جیسے کوئی اسے پرزم میں سے دیکھ رہا ہو۔ دھنک رنگ دوپہر۔ دھنک رنگ لوگ۔

ہر رنگ میں ماہی بستا ہے‘۔ مجھے لگا پُرشور و پُرہجوم یونین سکوائر کی ایک داخلی سیڑھی پر بینر کے درمیان کھڑا پمفلٹ بانٹتا یہ لڑکا مجھ سے ایسے مانوس صوفی بول کہہ رہا ہو لیکن یہ میرا واہمہ تھا اور جو واہمہ نہیں تھا وہ یہ تھا وہ کہہ رہا تھا: ’مجھے یقین تھا کہ تم پھر آؤ گے۔ یہ پمفلٹ لے لو۔ فری ہے اگرچہ یہ ملک فری نہیں۔ اسے فری بنانا ہے بش اور چینی سے‘۔

لیکن مجھے جلدی تھی کیونکہ کئی دنوں بعد مجھے اپنے ناول نگار دوست سے ملنا تھا۔

کیفے چٹنی‘ مشہور پاکستانی ریسٹورنٹ کئي بار آ کر بھی میں پھر بھول گیا۔ اس کے ساتھ والا علاقہ ٹنڈر لائن ہے جو سان فرانسسکو میں ہوم لیس ( بےگھر) لوگوں کا بڑا گڑھ ہے۔ امریکہ میں ہوم لیس ٹوٹے ہوئے امریکی خواب کے ہیولے ہیں۔

جس دن صدام حسین گرفتار ہوئے تھے اس دن ان کی گرفتاری پر سان فرانسسکو کے ایک اخبار نے لکھا تھا کہ عراقی ڈکٹیٹر گرفتاری کے وقت ٹنڈر لائن کے کسی مفلوک الحال بے گھر جیسا لگتا تھا۔ مقامی لوگ بتا تے ہیں کہ ٹنڈر لائن علاقہ منشیات و جسم فروشی اور کبھی کبھار کے تشدد کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔

میری لیزبین (ہم جنس پرست) دوست سوشیالوجسٹ ایمی ڈوناون نے ٹینڈر لائن کے ہوم لیس جسم فروش نوجوانوں پر اپنی کیمرا ورک پر مبنی کتاب لکھی تھی۔ کئي برس ہوئے کہ میری ایمی سے ملاقات نہیں ہوئی۔

مجھے ایمی کی کتاب کے ایک چیپٹر سے وہ لڑکی بھی یاد ہے جو ایڈز کے باعث ہلاک ہونے والے اپنے شوہر کی ایک بوتل میں بند راکھ ہر وقت اٹھائے پھرتی تھی۔ بے یارومددگار لڑکی اسی راکھ کی بوتل لیے شاید کہیں دور دراز سے گرے ہاؤنڈ بس پر سان فرانسسکو آئي تھی۔

ایمی سے پہلی بار میں کوئنز میں اس سالگرہ کی پارٹی میں ملا تھا جس میں مجھے ظفریاب لے گیا تھا۔ پاک پتن سے تعلق رکھنے والے نیویارک کیب ڈرائیورز یونین کے سرگرم کارکن جاوید کی اطالوی نژاد زوجہ کی سالگرہ تھی۔

وہاں بھلا کون کون آیا ہوا تھا ! نیویارک میں ٹیکسی یونین کی لیڈر گوری ڈیسائی، حیدر رضوی اور اس کی شاعرہ گرل فرینڈ (اب غالباً سابقہ) سارہ اور لاہور سے جاوید کی عزیزہ اور ہماری دوست سیدہ دیپ۔ کیا محبوب لوگ تھے۔

ایسے لگتا تھا جیسے وہ ظفریاب کی سالگرہ تھی۔ ’سوچا تو یہی تھا دیکھا تو نہیں ہے، کل کوئی جانے والا ہے ، آنے والا پل جانے والا ہے۔۔۔۔‘

زمانے کی قسم، ظفریاب ! انسان واقعی ایک ’ایل‘ ٹرین پر سوار ہے۔

سان فرانسسکو پر اترتی شام ہم نے ٹینڈرلائن کے کونے پر ایک بار ڈھونڈھ لی جو واقعی کسی فلم میں1930 کے سیٹ جیسی لگتی تھی۔ بیساکھی اور کاؤ بوائے ہیٹ پہنے ایک کھل نائک کردار اور اس کے ساتھ ایک پپو نوجوان اور اسے گھیرے ہوئے کچھ لوگ۔

کیا یہاں سگریٹ پیا جا سکتا ہے؟ میں نے چینی نژاد بار ٹینڈر سے پوچھا۔ ہاں، بڑے شوق سے کیوں نہیں۔ اس نے چوسنے والی گولیوں کی ٹن والی خالی ڈبیا سے بنی ایش ٹرے بڑھاتے ہوئے کہا۔ کیلیفورنیا میں یہ غنیمت تھی کہ بہت سے پبلک اور پرائیویٹ مقامات پر تمباکو نوشی پرقانونی بندش ہے۔

گلا ذرا ترو تلخ ہوا تو کاسٹرو سٹریٹ پر جانے کی نیت باندھی جہاں واقعی اتوار کی اس رات آدمی پر آدمی چڑھا ہوا تھا۔ نوجوانوں کی بار سے لے کر پیغمبری کی عمر والی (یعنی چالیس والی) بار میں بھی جانا ہوا۔

گجرانوالہ کے جنونی سے بچے تو مصالحہ دار کھانوں اور ان کے بنانے والوں سے آدمی کتنا بچے گا! سنا ہے آج کل ’سیلیکان ویلی بوم‘ کی طرح سان فرانسسکو اور بے ایریا میں پاکستانی ہندوستانی ریستورانوں کا بوم آیا ہے !۔

جنت گم گشتہ‘ شاید1960 دہائي والی ہیٹ اور ایش بری سٹریٹ کو کہا جائے، جہاں ہپی اور بیٹ جنریشن کی تحاریک اور کونے پر تاريخی ’سمر آف لو‘ گولڈن گیٹ پارک میں ہوا تھا۔

میں نے بچپن میں ایک ایسا ہی امریکہ سوچا تھا۔ یہ سب اب امریکہ میں دیو مالائي قصے ہیں۔ کھویا ہوا افق۔ لیکن پھر بھی ہیٹ ایش بری اور ایسی جگہوں پر آ کر کہیں کہیں لگتا ہے گھڑی کی سوئیاں ساٹھ کی دہائی پر اٹک گئي ہیں۔ ازانسوائے کہ اب کل کے ہپی بین اینڈ جیری آج آئس کریم کی بڑی کمپنی ہیں۔

وہ امریکی لکھاریوں اور شاعروں کی بیٹ جنریشن تھی اور ہم پاکستان کی بیٹن جنریشن ہیں، میرے دوست نے ازراہِ تفنن کہا۔

ہیٹ پر ہی میں ’زم زم‘ نامی بار میں اپنی آنکھیں چھوڑ آیا یعنی چشمہ بھول آیا۔ ’آج شاعر امیری براکا کی شاعری کی ریڈنگ ہے‘۔ کہاں؟ ’ سٹی لائيٹس بک سٹور میں، میرے دوست نے بتایا۔

سٹی لائٹس بک سٹور والے وہ ناشر ہیں جنہوں نے آج سے آدھی صدی قبل ایلن گنسبرگ کی تاریخی نظم ’ہاؤل‘ چھاپی تھی جس نے ایک تہلکہ مچادیا تھا۔ ایلن گنسبرگ اور سٹی لائٹس پر فحاشی کا مقدمہ چلا تھا جس کا فیصلہ شاعر اور ناشر کے امریکہ میں آزادی اظہار کے حق میں بڑی فتح تھی۔ گنسبرگ کی اس نظم نے امریکی شاعری، ادب اور زندگی کی تاریخ ہی بدل ڈالی۔

ایلن گنسبرگ اور اس کی جنریشن کے شاعروں اور لکھاریوں کو سننے لوگ جوق در جوق کھنچے چلے آتے تھے جیسے اس شام اس افریقی امریکی بیٹ جنریشن اور سول رائٹس کے امیری براکا کو سننے کے لیے اکھٹے ہوئے تھے۔

پورے سٹی لائٹس بک سٹور میں تل دھرنے کی بھی جگہ نہیں تھی کہ شاعر کے پڑھنے سے قبل شاپ کے دروازے بند کر دیے گئےاور لوگ تھے کہ ان کو سننے فٹ پاتھ پر کھڑے تھے اور کئی اندر آنے کے لیے سٹی لائٹس کی انتظامیہ سے تکرار و بحث کر رہے تھے۔

باہر فٹ پاتھ پر جو پاؤں رکھا تو وہ بیٹ جنریشن کے ناول نگار جیک کوریئيک کے نام والے بنے ستارے پر پڑا۔ اس فٹ پاتھ پر ایسے کئی ناموں والے ستارے بنے تھے اور اس فٹ پاتھ کے پار وہ بار بھی تھی جہاں ایلن گنسبرگ اور ان جیسی شخصیات اور ان کے مداح بیٹھا کرتے تھے۔

میں نے سٹی لائٹس کے ریکس پر جریدے ’نیوز لائین‘ کراچی میں اپنے سینئر ساتھی اور پاکستان کے معروف صحافی زاہد حسین کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’فرنٹ لائن پاکستان‘ سجی دیکھی، اور کتاب گھر کی سیلز والی خاتون نے بتایا کہ سٹی لائٹس پر تین کاپیاں آئی ہوئی ہیں۔

سٹی لائٹس جیسے تاريخی کتاب گھر پر زاہد حسین کی کتاب کی تیں کاپیاں بڑی بات تھی۔ زاہد حسین نے یہ کتاب پاکستان میں جہادیوں، فوج اور آئی ایس آئی کے تعلقات پر لکھی ہے۔

دنیا بہت مختصر ہے۔

کیا تم پاکستان کے ہو۔ میں فجی کا ہوں؟ میں پاکستان گیا ہوں۔ کراچی اور اسلام آباد بھی۔ کراچی رینبو سینٹر بھی ’ ہمیں سٹی لائٹس لاتے ہوئے ٹیکسی ڈرائيور فاروق خان نے کہا ’فجی آئی لینڈ میں حالات کیسے ہیں؟ ’ ہم نے ان سے پوچھا۔ ’اب حالات اچھے ہیں۔ جب سے ایک اور ملٹری کُو آیا ہے۔ اچھا کُو۔ انتخابات رکے ہوئے ہیں کہ پہلے احتساب ہوجائے لیکن کُو تو پہلے بھی آیا تھا نہ؟‘ ہم نے ان سے پوچھا ’ہاں۔ بہت پہلے لیکن وہ برا کُو تھا یہ والا اچھا کُو ہے۔

مشرف کے مصاحبین کے بعد ’بری فوجی بغاوت‘ اور ’اچھی فوجی بغاوت‘ جیسی اصطلاحات ہم نے فجی کے ان صاحب ہی سےسنیں

Comments are closed.