کیا نواز شریف کے پاس عوام کی بھلائی کا کوئی منصوبہ ہے؟


عدنان ملک

جمہور نے سیاسی بازیگروں کی تمام تقریریں سن رکھیں اور ازبر ہیں ابھی بھی انہی میں سے ایک محاشے 20 سال ایسی ہی فوج اور کرپٹ سیاستدانوں کے خلاف تقریروں کے انبار لگا کر آج ملک کے سب سے اونچے سنگھاسن پر براجمان ہے اور اپنی تمام تقاریر کو کوڑے دان میں پھینک کر کرپٹ ترین ساتھیوں کے ہمراہ ٹھنڈے ٹھار محلوں اور ایوانوں سے زخموں سے چور عوام کی بربادی کا مزہ لے رہے ہیں۔ عوام نے ایسے ہی دوغلے سیاسی لیڈران کا بویا کاٹا ہے جنہوں نے ہمیشہ شب خون مارنے والی غیر جمہوری طاقتوں کو کندھا فراہم کیا۔

ملک کی اکثریتی مجبور بےبس عوام کو تو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ آج نواز شریف اور اسکے سیاسی الائنس وغیرہ کیا ہیں اور کیوں ہیں ان کو تو اپنی کسمپرسی کی حالت سے مطلب ہے جن کا انہیں دھائیوں سے سامنا ہے ان میں سے چند میرے جیسی سوچ رکھنے والوں کے نزدیک یہ سب اشرافیہ (سیاسی، غیر سیاسی) خون چوسنے والی جونکیں ہیں جو صرف عوام کا نام اپنے ذاتی مفادات کیلئے ہی لیتے ہیں۔ اور مختلف حربوں سے انہی کی کھال اتارتے ہیں۔ عام آدمی کو آج تک انکے بنیادی حقوق نہیں مل سکے اور یہ سب انہیں باری لینے والے حکمران اشرافیہ کا کیا دھرا ہے۔

ملکی تاریخ میں عوام نے ایک اس نعرہ پر کہ بدترین جمہوریت بھی آمریت سے بہتر ہوتی ہے ہمیشہ لبیک کہا ان کے ساتھ وفا کی مگر ان اشرافیہ نے جو خود تو امپورٹڈ پانی پیتے ہیں بدلے میں غریب عوام کو پینے کیلئے صاف پانی تک نہ دے سکے جو ہمیشہ سے انکے لئے خون بہاتے جانیں لٹاتے رہے۔

افسوس ہمارے ہاں عوامی سطح پر سیاسی پختگی کا یہ عالم ہے کہ ان سیاسی لیڈروں کیلئے جمہوریت کے نعرے مارنے اور ڈنڈے سوٹے کھانے والے جمہوریت کی تعریف ہی نہیں جانتے کہ وہ اپنی اصل میں ہے کیا۔ آخر اور یہ کس معاشرے کا سیاسی نظام ہے اور کیسے اسکی آبیاری ہو گی؟

ویسے بھی ہماری والی جمہوریت تو مشرف بہ اسلام ہو چکی ہے جس کی دنیا میں دوسری کوئی اور مثال نہیں اور نہ ہی کسی ڈکشنری میں اسکے معنی یا تشریح دستیاب ہے لیکن سیاسی بازیگری میں جمہوریت کو اسلامی بنانا ضروری اس لئے ہے کہ عوام اپنی بدحالی کے باوجود مذہب کے نام دستیاب رہیں۔ ایک قبائلی و جاگیردارانہ سماج میں سیاسی راہنما الائنس بنا کر جمہوریت اور اسکے پنپنے کی بات کرتے ہیں اور سپورٹر انکے حق میں نعرہ مستانہ کرتے ہیں لاحول ولا قوۃ الا باللہ سب مل کر کیا حسین مذاق فرماتے ہیں!!!۔ اشرافیہ کا یہ ٹولہ ایک مافیا ہے غریبوں کی قبروں پر اپنے محلات تعمیر کرنے کے سوا انکا کوئی دوسرا منشور نہیں اور ہمیں جاہل رکھنے میں ہی انکی بقاء ہے۔

عوام ہمیشہ اپنے ملکی وسائل کی حفاظت اور انکے درست استعمال کیلئے ان پر تقیہ کرتے ہیں تا کہ یہ حکومت میں آ کر عوامی فلاحی منصوبے شروع کریں تاکہ انکی زندگیوں میں آسانیوں کا سفر شروع ہو سکے عوام اسی لئے خود تنگی برداشت کر کے ان مداری سیاستدانوں کو پالتے ہیں مگر یہ تقریر باز ہمیشہ جعلی نکل آتے ہیں اور انہی بھیڑیوں سے مل بیٹھتے ہیں جو پہلے ہی عوامی وسائل ہڑپ کر رہے ہوتے ہیں۔
اب  اے پی سی بلانے کی اصل وجہ کیا ہے۔۔۔۔ ؟؟؟

یہ عوام کی بھلائی کیلئے نہیں بلکہ دو بڑے دھڑوں کی آپسی لڑائی کی وجہ سے تیسرے دھڑے کو شامل کرنے کی مجبوری (سیاسی دباؤ) ہے اب تیسرا دھڑا اس لڑائی سے اپنا فائدہ دیکھے گا تو اس میں عوام کی بھلائی کہاں ہے۔۔۔۔۔ ؟؟؟

 ہماری مجبوری اور بدقسمتی ہے کہ سیاست کیلئے ہمارے پاس ان گنت سیاسی بازیگروں کے سوا اور کوئی دوسرا آپشن بھی نہیں ہے یہ ہمیشہ کی طرح عوام کو اتنا ہی دیں گے کہ انکی سانسیں چلتی رہیں انکا دم نہ نکلے کیونکہ عوام کا دم نکلنے سے یہ مار دھاڑ کن کے ساتھ کریں گے انکا سسٹم چلنے کیلئے ہماری سانسوں کا بطور ایندھن چلنا انکے لئے بہت اہم اور ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے ان سیاسی قائدین کو تنقید کرنے والوں کی نہیں کیونکہ تنقید سے انکو مرگی سے دورے پڑتے ہیں بلکہ ایسے سپورٹرز کی اشد ضرورت رہتی ہے جو انکو اپنا مرشد مانیں انکی سنگین غلطیوں کو بھی انکی سیاسی چالیں سمجھیں انکی ہر ہاں میں ہاں ملاتے جائیں انکی چالاکی اور مکاری پر تالیاں پیٹنے والے ایسے سبھی انکے لئے سیاسی شفا کا کام دیتے ہیں اور ایسے (نان سٹاپ اپنی زات کے دشمن) سپورٹرز کی کبھی انکو کمی واقع نہیں ہوئی اور اس لئے جب یہ اچانک کسی اشارے پر نمودار ہوتے ہیں تو یہ عوام بھنگڑے ڈالے ہےجمالو کرتے انکو موجود ملتے ہیں۔

قوم پرست راہنما ولی خان کی  تاریخی بات درست ہے کہ پاکستان میں ریاستی استبداد اور آمرانہ قوتوں کے خلاف جمہور کی بالادستی اور ریاستی استبداد سے نجات کے لئے پاپولر آواز اور تحریک جب تک پنجاب سے نہیں اٹھے گی اور فیصلہ کن جمہوری لڑائی پنجاب کے میدانوں میں نہ لڑی جائے گی ملک میں منتخب اداروں کی بالادستی، آئین و قانون کی حکمرانی، چھوٹی قومیتوں اور صوبوں کے حقوق کا حصول ایک خواب رہے گا۔

تو کیا پنجاب میں یہ تحریک ایک نیو لبرل ازم کا نمائندہ ایک بہت بڑا سرمایہ دار شروع کرے گا جن کا ہر عمل خود کی ذات اور اپنے گروہ کو کسی بھی قیمت پر نفع پہنچانے کے سوا اور کچھ بھی نہیں ہوتا یا پھر وہ کوئی غریب (جسکا ابھی اس دھرتی پر وجود ہی نہیں) جس نے غربت کا براہ راست سامنا کیا ہو جس نے بھوک کی ذلت سہی ہو اور اب وہ اپنی عوام کو اس زلت سے بچانے کیلئے انکا حق کھانے والوں کے خلاف اٹھ کھڑا ہو یہ ہے اہم ترین  سوال؟؟

اس ملک میں کسی ایسے ریفارمر کی اشد ضرورت ہے جو عوام کے سماجی سیاسی شعور کو اتنا بلند کر دے کہ انہیں اپنے اصل ان دشمنوں کی خبر ہو سکے جو نسل در نسل انکی بربادی کے ذمےدار ہیں۔
لیکن چلیں ایک بار پھر جو دستیاب ہے اسے ہی موجودہ تناظر میں دیکھتے ہیں کہ عوام تو اپنے لیڈران کی آواز پر ہمیشہ کی طرح اب بھی کھڑی ہو جائے گی انکا ساتھ دے گی اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف پنجاب کی سب سے پاپولر آواز بھی ہے کہ یہ غریب عوام کے ساتھ کھڑا رہتا ہے یا پھر اپنے انہی لوکل و عالمی سرمایہ داروں کے ساتھ جنہوں نے غربت پیدا کرنے کی فیکٹریاں لگا رکھیں ہیں۔

Comments are closed.