نیا زمانہ کی ڈائری

جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے لشکر طیبہ نے اپنے مجلہ ہفت روزہ الدعوۃ کا آغاز 90 کی دہائی میں کیا تھا اور اس کا پہلا دفتر مسجد مائی لاڈو، نسبت روڈ چوک کے قریب تھا۔ میرے والد کو تقریبا تمام مذہبی جماعتوں کے پرچے اعزازی آتے تھے۔ ضیا الحق کے دور میں افغانستان میں جہاد شروع ہوچکا تھا اور بے شمار مذہبی تنظیموں کے پرچے شائع ہورہے تھے۔ ایک تنظیم موتمر عالم اسلامی بھی مقبول ہوئی تھی اس کے ترجمان پرچے کا نام بھی موتمر عالم اسلامی تھا، اس کے علاوہ ڈاکٹر اسرار کا میثاق، اہل حدیث کا محدث اور کچھ شیعہ تنظیموں کے پرچے تھے۔ جب الدعوۃ کا آغاز ہوا تو وہ بھی آنا شروع ہوگیا۔

مجلہ الدعوۃ کی اہم خصوصیت یہ تھی کہ اس میں نمایاں طور پر بتایا جاتا تھا کہ اس ہفتے کتنے ٹی وی توڑے گئے ہیں۔ ہر ہفتے تصاویر کے ساتھ مختلف علاقوں میں الدعوہ کے کارکن اپنے گھروں میں موجود ٹی وی باہر لاتے اور برائی کی اس علامت کو سنگسار کرتے دکھاتے۔اس کے علاوہ دوسری اہم خبر بھارتی کشمیر میں جہاد کی خبریں ہوتیں جس میں بتایا جاتا کون مجاہد شہید ہوگیا ہے وغیرہ وغیرہ۔افغانستان سے امریکی فوجیں نکل چکی تھیں اور وہاں اسلام کے نام پر جو فتوحات، یعنی قتل و غارت ، ہوتیں ان کی خبریں بھی ہوتی تھیں ان دنوں لاہور کے گلی محلوں اور تجارتی مراکز پر لشکر طیبہ کی طرف سے جہاد اکٹھا کرنے کے لیے چندے کے ڈبے بھی رکھے ہوتے تھے اور لوگ سودا سلف خریدتے وقت ایک یا دو روپیہ پانچ روپیہ اس ڈبے میں بھی ڈال دیتے تھے اور یہ سلسلہ ممبئی حملوں کے بعد جا کر کہیں کم ہوا۔

کوئی سال 2001 کی بات ہے نیا زمانہ کا دفتر حفیظ سنٹر گلبرک کی دوسری منزل پر تھا۔ اس دوران ہر ہفتے کوئی چپکے سے دفتر میں دروازے کے نیچے سے الدعوۃ رسالہ ڈال دیتا۔ میں پہلے سمجھا کوئی غلطی سے مجھے دے گیا ہے مگر ایسا نہیں تھا۔ کوئی ایک ڈیڑھ ماہ بعد ایک سلفی نوجوان دفتر آیا اس کے ہاتھ میں تازہ رسالے کا بنڈل تھا اور ایک مجھے دیا اور کہا کہ مجھے چندہ چاہیے کیونکہ آپ کو ہرہفتے رسالہ پہنچایا جارہا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے تو ا س کی ضرورت نہیں ہم تو خود رسالہ چھاپتے ہیں اور لوگوں سے چندہ لیتے ہیں۔ کہنے لگا۔۔۔ ہیں۔؟ رسالہ دکھائیں ۔اس نے رسالہ دیکھا الٹ پلٹ کرکے رکھ دیا اور کہنے لگا ہم جو چندہ لیتے ہیں وہ رسالے کا نہیں ہوتا یہ دراصل جہاد کا ہے جو ہم کشمیر میں لڑرہے ہیں۔

میں نے کہا کہ کشمیر میں جہاد لڑنے کا چندہ تو میں مسلسل دے رہا ہوں توبولا کس کو دے رہے ہیں؟ میں نے کہا پاک فوج کو؟ تو وہ ہنس پڑا کہنے لگا کہ فوج کچھ نہیں کرتی ہم جہاد کررہےہیں ہمیں چاہیے۔بہرحال میں نے اسے ٹال دیا۔اس کے بعد تھوڑا بہت تعلق بن گیا۔تقریباً ہر ماہ وہ نوجوان آتا اور میرے پاس بیٹھ کر کچھ گپ شپ کرتا۔ حفیظ سنٹر گلبرک ایک بڑا تجارتی مرکز ہے وہاں جتنے تاجر تھے کوئی جہاد کا انکار تو کر نہیں سکتا تھا۔ لہذا ہر کوئی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیتا۔ اس کی گفتگو کے مطابق کوئی مہینے کا لاکھ روپیہ صرف حفیظ سنٹر سے اکٹھا ہو جاتا تھا۔

سال 2001 میں لشکر طیبہ کا جو نوجوان، حفیظ سنٹر لاہور میں رسالہ بانٹتا اور چندہ اکٹھا کرتاتھاوہ جب بھی حفیظ سنٹر آتا کچھ دیر کے لیے میرے پاس دفتر بھی بیٹھ جاتا۔

باتوں باتوں میں اس نے بتایا کہ اس کی جہادی تربیت مکمل ہوچکی ہے اور جلد ہی اسے بھارتی کشمیر میں جہاد کے لیے روانہ کر دیا جائے گا۔ میں نے پوچھا کہ بھئی ٹریننگ کہاں سے لی ہے تو کہنے لگا مانسہرہ کے پاس ایک گاؤں ہے جہاں ہماری ٹریننگ ہوتی ہے ۔ آئی ایس آئی نے دہشت گردوں کی تربیت کے لیے کئی ٹریننگ کیمپ بنا رکھے تھے جن میں سے ایک مانسہرہ میں تھا۔ اس کے علاوہ کئی ایک کیمپ قبائلی علاقوں میں بھی تھے جہاں مختلف تنظیمیں اپنے اپنے دور میں جہاد کی تربیت دیتی تھیں۔ ماضی میں پنڈی والے شیخ رشید کی نگرانی میں بھی کشمیر میں ایسا ہی ایک تربیتی کیمپ چلتا رہا ہے۔

دہشت گردی کی تربیت کا ایک اہم مرکز فیصل آباد جیل میں بھی تھا۔اور یہ اس وقت کوئی خفیہ بات نہیں تھی۔ خفیہ رکھنے کا مسئلہ تو ممبئی حملوں کے بعد شروع ہوا تھا۔ اگر کسی کے پاس مجلہ الدعوۃ کی فائلیں موجود ہوں تو اس میں تمام تفاصیل موجود ہیں ۔یاد رہے کہ جب خیبر پختونخواہ میں ایم ایم اے کی حکومت قائم ہوئی تھی تو اس وقت کے سنئیر وزیر سراج الحق باقاعدگی سے اس کیمپ کا دورہ کرتے تھے۔شاید یہ وہی جگہ ہے جہاں بعد میں بھارتی طیاروں نے گھس کر حملہ کیا تھا اور ابہی نندن والا واقعہ ہوا تھا۔

اس جوان نے بتایا کہ جیسے ہی موسم سرما شروع ہوگا اسے کشمیر کا بارڈر کراس کرا دیا جائے گا جہاں کچھ مجاہد اس کے لیے استقبال کے لیے موجود ہونگے۔۔۔۔ وہ تین چار ماہ میرے پاس آتا رہا ۔ اس کے بعد اس کا آنا بند ہوگیا، اور میں یہی سمجھا کہ اسے جہاد کے لیے روانہ کر دیا گیا ہے ۔ اس کی گفتگو سے اتنا ہی پتہ چلا تھا کہ وہ ساہیوال کے گردو نواح کا رہنے والا تھا۔

نیا زمانہ کی ڈائری سے اقتباس

محمد شعیب عادل

Comments are closed.