امریکہ : کورونا وائرس کی ویکسین کیسے تقسیم ہو گی؟

صرف ایک سال کی مختصر مدت میں کورونا وائرس کی ویکسین کی تیاری کسی معجزے سے کم نہیں۔ ماضی میں کسی بھی وائرس کی ویکسین تیار کرنے میں کئی دہائیاں لگ جاتی تھیں۔ امید ہے کہ ١٣ دسمبر تک ویکسین کی تقسیم شروع ہو جائے گی۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ویکسین کی تقسیم کیسے ہو گی؟

نیشنل اکیڈمی آف میڈیسن کی گائیڈ لائن کے مطابق سب سے پہلے ان افراد کو ویکسین ملے گی جن کی زندگیوں کو کورونا وائرس سے سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ اس گروپ میں ڈاکٹر، نرسیں، ایمرجنسی میڈیکل ٹیکنیشن، فائر ڈیپارٹمنٹ اور صفائی کا عملہ شامل ہیں۔ ان کے ساتھ لاغر اور بیمار بزرگ جو اولڈ ہوم یا گروپ ہوم میں رہتے ہیں انھیں بھی پہلے مرحلے میں ویکسین ملے گی۔ پہلے مرحلے کے دوسروں راونڈ میں وہ تمام افراد ویکسین کے حقدار ہوں گے جن کی عمر 65 سال سے زیادہ ہے۔

دوسرے مرحلے میں اساتذہ، بچوں کی دیکھ بھال کرنے والے ورکر، وہ افراد جو کسی جسمانی عارضے کا شکار ہیں، اور جیلوں میں بند 65 سال سے کم عمر کے قیدیوں کو ویکسین دی جائے گی۔

تیسرے مرحلے میں جوانوں، بچوں، اور کارخانوں، ہوٹلوں، بنکوں، اور تعلیمی اداروں کے ملازمین کو ویکسین ملے گی۔

چوتھے مرحلے میں امریکہ میں رہائش پذیر ہر بندے اور بندی کو ویکسین دی جائے گی۔

خیال رہے امریکہ کا فوڈ اور ڈرگ ایڈمنسٹریشن کا ادارہ نئی دواؤں اور ویکسین کی منظوری دیتا ہے۔ اس کی شرائط بہت سخت ہیں۔ وہی دوا یا ویکسین منظور ہوتی ہے جو سب شرائط پوری کرے۔ نیز اس کے استعمال سے انسانوں کی صحت پر کوئی برا اثر نہ پڑے۔ جس طرح ہنگامی بنیادوں پر بہت مختصر عرصے یعنی صرف دس ماہ میں ویکسین تیار کی گئی اسی طرح ہنگامی بنیادوں پر اس کی منظوری کے مراحل طے کئے جا رہے ہیں۔

جنرل گوستاوی پرنا، جس کے کندھوں پر اس منصوبے کی نگرانی کے ساتھ ویکسین کی منصفانہ تقسیم کی ذمہ داری بھی ہے اپنے حالیہ ٹی وی انٹرویو میں بتا چکا ہے کہ ویکسین کی ھنگامی بنیادوں پر منظوری اگلے ماہ یعنی دسمبر میں مل جائے گی اور اسی ماہ تین کروڑ ٹیکے تقسیم کے لئے فراہم کر دئیے جائیں گے۔

امریکی حکومت کورونا وائرس کی ویکسین بنانے والی دونوں کمپنیوں کو تقریبادس ارب ڈالر پیشگی دے چکی ہے۔ لہذا سب سے پہلے یہ ویکسین امریکیوں کو ملے گی۔ اس کے بعد یہ کمپنیاں دوسرے ملکوں کی حکومتوں کو ویکسین مہیا کریں گی۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق یہ ویکسین  کم از کم دو مرتبہ لینا ہو گی۔

رپورٹ: زبیر حسین 

Comments are closed.