بھارت کا پاکستان اور چین کو سخت پیغام

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کانفرنس کے دوران پاکستان اور چین کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام رکن ملکوں کو ایک دوسرے کی علاقائی سالمیت کا احترام کرنا ہوگا۔

گزشتہ مئی میں بھارت اور چین کے مابین مشرقی لداخ میں فوجی کشیدگی شروع ہونے کے بعد سے یہ پہلا موقع تھا جب وزیر اعظم نریندر مودی اورچینی صدر شی جن پنگ اور پاکستان وزیر اعظم عمران خان، ورچوئل ہی سہی، ایک دوسرے کے آمنے سامنے آئے۔ یہ رہنما روسی صدر ولادیمر پوٹن کی میزبانی میں منعقدہ ایس سی او کی دو روزہ کانفرنس میں شریک تھے۔

وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ بھارت ایس سی او چارٹر کے اصولوں کے مطابق کام کرنے کی اپنی عہد کی پاسداری  کرتا رہا ہے۔ انہوں نے پاکستانی وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اپنی تقریر میں کشمیر کے مسئلے کو اٹھانے پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ”یہ بدقسمتی ہے کہ ایس سی او ایجنڈے میں بار بار غیر ضروری طور پر دو طرفہ معاملات کو لانے کی کوششیں ہورہی ہیں، جو ایس سی او چارٹر اور شنگھائی اسپرٹ کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔ اس طرح کی کوششیں ایس سی او کی تشریح کرنے والے اتفاق رائے اور تعاون کے جذبے کے خلاف ہیں۔

بھارتی وزیر اعظم نے بھارت اور چین کے درمیان جاری سرحدی کشیدگی کا بھی ذکر کیا اور اسے جلد از جلد حل کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا، ”ایس سی او علاقے سے بھارت کا گہرا ثقافتی اور تاریخی تعلق رہا ہے۔ ہمارے آباؤ اجداد نے اس مشترکہ تاریخی اور ثقافتی وراثت کو اپنے انتھک اور مسلسل رابطوں سے زندہ رکھا۔ انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور، چابہار بندرگاہ، عشق آباد سمجھوتے جیسے اقدام کنکٹی وٹی کے تئیں ہندوستان کے مضبوط عزم کو ظاہر کرتے ہیں۔ 

وزیر اعظم مودی نے مزید کہا کہ بھارت کا ماننا ہے کہ کنکٹی وٹی کو اور زیادہ مضبوط کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ایک دوسرے کی خود مختاری اور علاقائی یکجہتی کے احترام کے بنیادی اصولوں کے ساتھ آگے بڑھا جائے۔

چین سے نرمی کی توقع نہیں

دفاعی اوراسٹریٹیجک امور کے ماہرین کا تاہم خیال ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ان پیغامات کا چین پر کوئی خاص اثر نہیں پڑے گا۔

بھارت کے قومی سلامتی مشاورتی بورڈ کے ایک سابق رکن اور سینٹر فار چائنا انالسس اینڈ اسٹریٹیجی کے صدر جے دیوا راناڈے نے ڈی ڈبلیو سے خاص بات چیت میں کہا، ”چین اپنی افواج کو (حقیقی کنٹرول لائن) سے واپس لانے کے لیے کسی طرح کے دباؤ میں نہیں ہے اور تمام حالات و واقعات یہ اشارہ کرتے ہیں کہ سردی کے سخت ترین موسم کے باوجود وہ وہاں طویل عرصے تک رہنے کے لیے تیار ہے اور اس نے کسی بھی طرح کے فوجی تصادم کا آغاز کرنے کے تمام امکانات کھلے رکھے ہیں۔

جے دیوا راناڈے کہتے ہیں کہ بیجنگ سرحد پر کسی طرح کی نرمی کا مظاہرہ نہیں کرے گا اور وہ سخت رویہ برقرار رکھے گا۔ انہوں نے کہا، ”وقت گزرنے کے ساتھ یا تو بھارت دباؤ میں آجائے گا، مصالحت کے لیے آمادہ ہو جائے گا یا سرحد پر اپنی نگرانی کم کر دے گا اور چینی مسلح افواج کو کسی کمزور علاقے پر حملہ کرنے کا موقع فراہم کردے گا۔

اسٹریٹیجک امور کی ماہر الکا آچاریہ بھی رانا ڈے کے خیالات سے اتفاق کرتے ہوئی کہتی ہیں کہ گوکہ کسی تصادم کو ٹالنے کے لیے بات چیت بہت اہم ہے لیکن کوئی فریق یہ نہیں چاہتا ہے کہ دوسرا یہ سمجھے کہ وہ اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گیا ہے۔

انسٹی ٹیوٹ آف چائنیز اسٹڈیز کی سابق ڈائریکٹر پروفیسر الکاآچاریہ نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا، ”یہ بالکل واضح ہے کہ دونوں فریق اپنے اپنے موقف پر سختی سے قائم ہیں اور ان میں سے کوئی بھی اس سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہتا ہے کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا کرنا ایک طرح سے اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے مترادف ہو گا۔الکاآچاریہ کا خیال ہے،”قوم پرستی کے جذبات انتہائی حد تک بھڑکا دیے گئے ہیں، جو کسی بھی طرح کے مفاہمتی اقدامات میں مزید رخنہ ثابت ہوں گے۔

خیال رہے کہ علاقائی سیاسی، اقتصادی اور سلامتی امور پر غورو خوض کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام جون2001ء میں عمل میں آیا تھا۔ اس آٹھ رکنی بلاک کو سب سے بڑی بین علاقائی بین الاقوامی تنظیموں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔ چین اور روس کے علاوہ پاکستان، بھارت، قازقستان، کرغیزستان، تاجکستان اور ازبکستان اس کے رکن ہیں۔ جب کہ ایران، افغانستان، بیلاروس اور منگولیا کے سربراہان مملکت مبصر کے طور پر اس کی میٹنگوں میں حصہ لیتے ہیں۔

DW.COM/Urdu

Comments are closed.