بھوبل۔۔ افسانچہ

نیلم احمد بشیر

جو بھی میرے گھر آتا، میری کالی بھجنگ کم صورت، ناٹے قد کی کام والی اماں پر ایک آدھ فقرہ ضرور کستا۔ میں کہتی: “بھئی دیکھو ۔ ۔ ۔ اماں کا دل شیشے کی طرح صاف اور خوبصورت ہے۔ کام میں بڑی ذمہ دار اور ایماندار ہے۔ میرے گھر کو اپنا گھر سمجھتی ہے، ہر وقت مسکراتی رہتی ہے۔ میں نے شکل کو کیا کرنا ہے؟۔

اماں پابندی سے صبح کام پر آتی اور سارے کام نمٹا کر شام کو اپنے شوہر شفیق کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر گھر چلی جاتی۔ شفیق بھی بس اس جیسا ہی تھا، یعنی انسان کا بچہ کہلایا جا سکتا تھا۔ سوکھا مریل جسم، ٹھگنا قد، بے ڈھنگی چال، غالباً رشتے میں کزن ہوں گے، میں نے دل میں سوچا ۔ چلو اللہ میاں نے خوب جوڑی بنائی، ایک جیسے ہی تھے۔

اماں بڑی اچھی طبیعت کی مالک تھی۔ خوش مزاج، ہنس مکھ۔ اسے کسی چیز کا نہ لالچ تھا نہ شوق۔ بس ایک ہی بات تھی، میں جب بھی سودا سلف لینے بازار جاتی، مجھ سے ایک ہی فرمائش کرتی: “بی بی میرے لئے راکھ کی بھوبل میں بھنی ہوئی ایک عدد چھلی ضرور لیتی آنا۔ بہت جی چاہ رہا ہے” ۔

میں بھی اس کی خواہش پوری کرنے پٹھان ریڑھی والے کو ڈھونڈ لیتی جو مارکیٹ میں ادھر ادھر کھڑے ہوتے اور ان سے چھلی خرید کر لے آتی۔

نرم گرم چھلی کھاتے ہوئے اماں کی خوشی دیدنی ہوتی۔ وہ اسی رغبت سے کھاتی کہ میں مسکرا دیتی۔ اماں۔۔۔! تجھے بس چھلی ہی پسند ہے؟ کہے تو کچھ اور بھی بازار سے لا دیا کروں؟ایک روز میں نے اسے کہا بس بی بی جی ۔۔۔! مجھے جوانی کے زمانے سے ہی چھلی کھانے کا بہت شوق تھا مگر شفیق سے جب بھی فرمائش کی اس نے سو سو باتیں بنائیں۔

ایک روز میں نے ایک پٹھان چھلی فروش سے بات کر لی کہ تو نے مجھے روز کی ایک چھلی ضرور دینی ہے۔ بس بی بی جی ۔ ۔ ۔ ! ادھرشفیق کام پر نکلتا ، ادھر دروازے پر کھٹ کھٹ ہوتی۔ میں کھولتی تو چھلی والا پٹھان مزے دار نرم تازی بھنی ہوئی چھلی لئے باہر کھڑا ہوتا۔ میں خوشی خوشی اس سے لے لیتی۔” ۔

اماں اپنی چھلی کی کہانی سنا کر بچوں کی طرح خوش ہونے لگی۔ ایک روز شفیق اماں کو لینے نہ آ سکا۔ اسے کسی کام سے گاؤں جانا تھا۔ آج میرا سب سے چھوٹا بیٹا مجھے لینے آئے گا۔اماں نے مجھے اطلاع دی۔

کام ختم کرنے کے بعد اماں سیڑھیاں اتر کر نیچے چلی گئی ۔میں نےگلی میں یونہی جھانکا کہ دیکھوں اماں جا رہی ہے کہ نہیں؟ اماں کے بیٹے پر نظر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔ ایک خوبصورت، گورا چٹا، لمبا تڑنگا نوجوان سائیکل لئے اسے لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ اگلے روز اماں کام پر آئی تو میں اس سے کہے بغیر نہ رہ سکی:۔

اماں تیرا بیٹا کس قدر پیارا ہے ماشااللہ، تیرا بیٹا تولگتا ہی نہیں ۔ کس پر گیا ہے؟“۔

میں نے اسے چھیڑتے ہوئے پوچھا لے بی بی جی ۔ ۔ ۔! بچے ماں باپ پر ہی جاتے ہیں اور کس پر جانا ہے؟“۔

اس کے چہرے پر ایسے رنگ پچکاریاں چھوڑنے لگے جیسے وہ انیس برس کی الہڑ مٹیارن ہو۔

Comments are closed.