تحریک لبیک نے اسلام آباد جانے کے راستے بند کردیئے

انتہائی دائیں بازو کی جماعت ’تحریک لبیک پاکستان‘ کی جانب سے فرانس کے خلاف جاری مظاہرے کے تناظر میں پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد سے جڑی ایک اہم سڑک بند کر دی گئی ہے۔

بتایا گیا ہے کہ اتوار 15 نومبر کو راولپنڈی سے قریب پانچ ہزار افراد پر مشتمل ایک ریلی اسلام آباد میں داخلے کی کوشش میں جس کی وجہ سے انتظامیہ نے راولپنڈی کو اسلام آباد سے ملانے والی اہم سڑک کو بند کر دیا تھا۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق پیر کے روز بھی وہاں قریب ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ بتایا گیا ہے کہ دارالحکومت آنے اور جانے والوں کو متبادل راستے اختیار کرن‍ا پڑ رہے ہیں، جس کی وجہ سے عام افراد کو تاخیر کا سامنا ہے۔

پیر کے روز مظاہرے کے مقام پر موبائل فون سروس بحال کر دی گئی۔ یہ سروس ریلی کے منتظمین کے ایک دوسرے سے رابطے روکنے کے لیے چوبیس گھنٹوں تک معطل رہی تھی۔

فرانسیسی صدر امانویل ماکروں کی جانب سے اسلام سے متعلق سخت بیان کے بعد پاکستان سمیت مختلف مسلم اکثریتی ممالک میں مظاہرے دیکھے گئے۔  یہ بات اہم ہے کہ فرانسیسی صدر امانویل ماکروں نے پیرس کے قریب ایک استاد کا سر قلم کیے جانے کے واقعے کے بعد اسلام کو بحران زدہ مذہب‘ قرار دیا تھا۔ اس استاد نے آزادی اظہار کے موضوع پر بحث کے لیے  اپنی جماعت میں پیغمبر اسلام کے خاکے دکھائے تھے۔ اس کے بعد ایک شخص نے اس استاد کا سر قلم کر کے تصاویر سوشل میڈیا پر پوسٹ کی تھیں۔ تاہم فرانس میں اس قتل کے بعد بڑے مظاہرے شروع ہو گئے، جن میں مقتول استاد کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ملک میں آزادی اظہار پر کوئی سمجھوتا نہ کرنے کے مطالبات کیے گئے تھے۔ فرانسیسی صدر نے اسی تناظر میں اپنے بیان میں کہا تھا، اس استاد کو اس لیے قتل کیا گیا کیوں کہ اسلامی شدت پسند ہمارے مستقبل پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔‘‘۔

اس بیان کے بعد پاکستان، ایران اور بنگلہ دیش میں بڑے مظاہرے ہوئے تھے، جب کہ متعدد ممالک نے فرانسیسی مصنوعات کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا تھا۔

پاکستان نے اس سلسلے میں فرانسیسی صدر کے اس بیان کو  منظم اسلاموفوبک مہم‘ قرار دیتے ہوئے شکایت کی تھی۔ وزیراعظم عمران خان نے فرانسیسی صدر امانویل ماکروں پر الزام عائد  کیا تھا کہ وہ مسلمانوں کے اعتقاد پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔ انہوں نے مسلم ممالک سے بھی کہا تھا کہ یورپ میں مسلمانوں کے حقوق دلوانے کے لیے مشترکہ اقدامات کیے جائیں۔

پاکستان میں توہین مذہب بدستور ایک حساس مسئلہ ہے، جہاں قانونی طور پر کسی شخص کو اسلام یا پیغمبر اسلام کی توہین کے الزام میں سزائے موت تک سنائی جا سکتی ہے۔ جب کہ انسانی حقوق کی تنظیموں کا موقف ہے کہ ملک میں موجود توہین مذہب کے قوانین کا عموماً غلط استعمال ہوتا ہے۔

اتوار کو شدت پسندانہ نظریات کے حامل مولوی خادم رضوی اور ان کی جماعت تحریک لبیک پاکستان نے فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے مطالبے کے ساتھ اپنے احتجاج کا آغاز کیا تھا۔ یہ بات اہم ہے کہ خادم رضوی اور ان کی جماعت اس سے قبل بھی پاکستان میں پرتشدد مظاہروں میں ملوث رہے ہیں۔ سن 2018 میں اسی تنظیم نے سپریم کورٹ کی جانب سے ایک مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو توہین رسالت کے الزامات سے بری کرنے پر بھی شدید مظاہرے کیے تھے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.