پاکستانی معیشت کی شرح نمو منفی کیوں؟

قربان بلوچ

پاکستان کی معیشت کو گذشتہ دہائی میں متعدد بڑےمعاشی اور ساختی چیلنجز کا سامنا رہا ہے،جس سے  کم معاشی نمو ، اونچی افراط زر ، بڑھتی ہوئی درآمد اور غیر مستحکم برآمد کی وجہ سے ادائیگیوں  کا سنگین عدم توازن شامل ہے۔ اس کے ساتھ  روپے کی قدر میں کمی، بڑھتے ہوئے قرضوں کے واجبات اور  ادائیگی  صورتحال،حکومت کی ٹیکس بنیاد بڑھانے میں ناکامی،شہریوں کو بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی ،ضروری اور ترقیاتی اخراجات  کی عدم تکمیل سے  حالات سنگین سے سنگین تر ہوتے جا رہے ہیں ۔

ان تمام معاشی چیلنجوں پر سیاسی اسکورنگ، بیان بازی، تنقید برائے تنقید پر ہی ساری سیاسی توانائیاں ضائع کردی گئی ہیں ۔حالانکہ غربت عروج پر ہے اور عدم مساوات کے ساتھ، لاکھوں بچے اسکولوں سے محروم ہیں .کم معاشی نمو ، بڑھتے ہوئے قرضاجات ، ناقص حکمرانی اور ناکافی معاشرتی اخراجات پاکستان میں غربت کے بڑے محرک ہیں۔

موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد عالمی معاشی سست روی اور اس کے فوراً بعد کووڈ کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے پاکستانی  معیشت بری طرح متاثر ہوئی۔رواں مالی سال کے دوراں  پاکستان میں معاشی نمو منفی میں متوقع جس سے حکومت کی مجموعی کارکردگی اور غربت کے خاتمے پر اثر پڑے گا۔

حکومت پاکستان نے ہمیشہ آمدنی اور اخراجات کے مابین فرق کا سامنا کیا ہے اور بڑ ھتے ہوئے اخراجات کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے قومی اور بین الاقوامی قرضوں کا استعمال کیا ہے۔مالی سال 20-1919ع کے اختتام پر پاکستان کا کل قرضہ 9۔ 44،563  ارب روپے یعنی  (265 ارب امریکی ڈالر) رہا۔ جبکہ ملکی جی ڈی پی 41،726.7 بلین روپے (248.1 بلین امریکی ڈالر) تھا۔ جس کا مطلب ہے کہ قرض اور واجبات جی ڈی پی کا  106.8 فیصد تھے۔

کل ملکی قرضوں کا بڑا حصہ مقامی ذرائع سے لیا گیا ہے ، تاہم اب بھی بیرونی قرضوں اور واجبات کا  مجموعی قرضوں میں بڑا حصہ ہے۔ مالی سال 20/ 2019ع  کے اختتام پر 44،563.9 بلین روپے (265 ارب امریکی ڈالر) میں سے بیرونی قرض اور واجبات 18،979 ارب روپے  یعنی  86۔ 112  ارب آمریکی ڈالر تھے جو کل قرض اور واجبات کا 43 فیصد  ہے۔ اس عرصے میں  مجموعی  سرکاری قرضہ 36،397 ارب روپے (216.4 ارب امریکی ڈالر)  تھا۔ یہ کل قرض اور واجبات کا 82 فیصد ہے۔کل سرکاری قرضوں کے مزید تجزیے سے پتہ چلتا ہے کہ 216.4 ارب امریکی ڈالر میں سے 78 ارب  ڈالر بیرونی قرض ہے جس میں آئی ایم ایف کے  7.7  ارب امریکی ڈالر شامل ہیں۔

ذریعہ: اسٹیٹ بینک پاکستان

https://www.sbp.org.pk/ecodata/index2.asp

بیرونی قرضہ جات اور واجبات۔

 تیس جون 2020 ء تک پاکستان کا کل بیرونی قرض اور واجبات 112.86 ارب  امریکی ڈالر رہا۔جب کہ ایک سال قبل ، 30 جون 2019 کو یہ تعداد 106.35 ارب  امریکی ڈالر تھی۔اس طرح ایک سال کے عرصے میں اس میں 6.51  ارب ڈالر   یعنی 6 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔آبادی کے مطالعات سے اندازہ لگایا جائے تو  وہ 2019 میں  اکیس کروڑ  11 لاکھ ستر  ہزار تھی ،جس کے بنیاد پر  اگر دسمبر 2019 میں بیرونی قرضوں کے مجموعی واجبات کو آبادی کے لحاظ سے تقسیم کیا جائے تو  فی کس قرض 524.31  امریکی ڈالر یا  88،172  روپیہ بنتا ہے۔

ذریعہ: اسٹیٹ بنک، پاکستان. https://www.sbp.org.pk/ecodata/index2.asا

پاکستان اکنامک سروی  20/2019ع کے مطابق پچھلے پانچ سالوں مجموعی قرضاجات اور واجبات میں 125 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، 2015ع میں کل قرض اور  واجبات   19،849.4   ارب روپے تھے  جو  جون 2020 میں بڑہ کر  44،563.9  ارب  تک پہنچے۔اس کے ساتھ  پچھلے دو سالوں میں  قرضاجات اور واجبات میں بہت بڑا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، سال 2018 کے اختتام پر ، کل قرض اور واجبات  29،879.4  ارب    روپے سے چھلانگ لگا  کر 2002  میں  9۔ 44،563  ارب روپے ہوگئے  یعنی پچھلے دو سالوں میں اضافہ  49 فیصد رہا۔ سال 2015 میں  بیرونی قرضہ  4،770.0  ارب  روپے تھا جو  جون 2020 میں 11،824.5  ارب  روپے ہوگیا ،جو  148 فیصد اضافہ ہے۔آئی ایم ایف کے قرضے تین گنا بڑھ چکے ہیں ،سال 2015ع میں اسکا قرضہ  6۔ 417   ارب   روپےتھے جو کہ جون 2020 میں 5۔  1291ارب   روپے ہو گئے۔

حکومت کا کل قرض گذشتہ پانچ سالوں میں دوگنا سے بھی زیادہ بڑھ گیا ہے۔ سال 2015 ع  حکومتی قرضہ  15،986.0  ارب  روپے تھے جو جون 2020 میں 33،250.8   ارب روپےہو گئے ہیں۔جی ڈی پی کی فیصد کے طور پر ، 2015 ع کے  58 فیصد  سے بڑھ کر  جون 2020 ع میں  80 فیصد ہو گیا تھا۔پاکستان جیسے ملک کیلیے کووڈ کی وجہ سے پچھلے دو سالوں سے پیدا  ہونے والی  معاشی مشکلات میں قرضہ جات اور واجبات کی ادائیگی ایک امتحان سے کم نہیں ہے۔اس کے باوجود مالی سال 20/ 2019ع   میں پاکستان نے  بنیادی  قرضہ جات اور سود کے مد میں  14.58  ارب  امریکی ڈالر ادا کیے ، جو سال19/ 2018ء کے ادا شدہ  رقم سے   2.99  ارب  امریکی ڈالر (26 ) فیصد زیادہ ہے ۔ معاشی حوالے سے  مالی سال 20/ 2019ع  کوویڈ بحران کی وجہ سے بہت خراب رہا ہے ، تاہم بیرونی قرض دہندگان نے قرض کی ادائیگی میں ہمدردی کا کوئی مظاہرہ نہیں کیا۔

ذریعہ: اسٹیٹ بنک ، پاکستان  https://www.sbp.org.pk/ecodata/index2.asp

پاکستان میں جب  مارچ  2020 کے اوائل میں کووڈ  کی شروعات ہوئی تھی تو یہ بات واضح تھی کہ  مالی مشکلات کے پیش نظر  حکومت اپنے شہریوں کی صحت کے ساتھ ساتھ معاش کا بھی تحفظ نہیں کر سکے گی۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں افراد بے روزگار ہوگئے تھے اور صحت کے نظام کو مالی معاونت میں مشکلات کا سامنا رہا تھا  ۔ اس صورتحال کی وجہ سے  وزیر اعظم پاکستان نے بحران کے آغاز ہی سے قرضوں سے نجات کی اپیل کی تھی۔ تاہم ، یہ بہرے کانوں میں چلا گیا۔

مالی سال کی آخری سہ ماہی  اپریل تا جون 2020ع    تک پاکستان نے قرض کی خدمت  اور سود کے طور پر کل 42۔ 8   ارب امریکی ڈالر ادا کیے۔اگر اس رقم کو مقامی کرنسی میں تبدیل کیا جائے تو یہ   602    ارب  روپے کے برابر ہوگی ، جبکہ حکومت پاکستان نے  اس سال احساس نقد پروگرام کے تحت غریب خاندانوں میں  144 ارب روپے  تقسیم کیے۔اگر عالمی قرض دہندگان صرف 602 ارب روپے کا ریلیف دیتے تو  پاکستان کے عوام کی مدد کی جاسکتی تھی۔ تاہم ، ایسا نہیں ہوا ۔اس عرصے میں  ملٹی لیٹرل اور  آئی ایم ایف کو  681   ملیں آمریکی ڈالر دا ہوئے ۔ جبکہ وہ ادائیگی قرض کی امداد کے ذریعے کووڈ ہنگامی امداد کے لئے معاف کی جاسکتی تھی۔

ذریعہ: اسٹیٹ بنک ، پاکستان  https://www.sbp.org.pk/ecodata/index2.asp

 اب پاکستان میں  دوبارہ کوووڈ تیزی سے بڑھ رہا ہے ،ایسے حالات میں حکومت  کو صحت ،معاشرتی تحفظ اور چھوٹے کاروباری اداروں کو مدد فراہم کرنےکی  شدید ضرورت ہے ،جو حکومت موجودہ معاشی صورتحال میں نہیں کر سکتی۔ایسے حالات میں عالمی بنک،ایشین ترقیاتی بنک، آئی ایم ایف اور باقی دوسرے مالی اداروں کو پاکستان جیسے ممالک کے قرضوں کی ادائیگی منسوخ کرنی چاہیے۔اگر صرف ایک سال کے غیر ملکی عوامی قرض کے مد میں کی جانی والی ادائیگی  کے برابر قرضے اور سود کی ادائیگی معاف یا منسوخ کی جائے تو  پاکستان جیسے ملک میں   7۔ 10ی رقم     ارب ڈالر کے برابر اضافی  رقم موجود ہوگی،جو تقریبا 1800 ارب  پاکستانی روپےکے برابر بنتا ہے، جو پوری آبادی کو مفت کوویڈ ویکسین فراہم کرنے کے لئے کافی ہیں۔

قربان بلوچ اسلام آباد کے سنیئر صحافی ہیں، واٹر ایشوز،  صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم  اور سیاسی معاملات پر لکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا

Comments are closed.