سعودی عرب میں آئل ٹینکر پر حملہ، جدہ کی بندرگاہ بند

سعودی شپنگ کمپنی کے مطابق جدہ کے قریب پیر کی صبح ایک آئل ٹینکر میں دھماکہ ہوا جو کسی ’بیرونی ذرائع‘ سے ہونے والے حملے کے نتیجے میں پیش آیا۔ اس حملے کے تانے بانے یمن میں سالوں سے جاری جنگ سے جوڑے جا رہے ہیں۔

سعودی عرب کے بندر گاہی شہر جدہ میں اس تازہ ترین حملے کا ہدف بی ڈبلیو رائن  کمپنی کا آئل ٹینکر بنا، جس پر سنگاپور کا جھنڈا لگا تھا۔ یہ کمپنی سعودی بادشاہت کی آئل کمپنی‘ کے کانٹرٹکٹ پر ہے۔ دھماکے کے بعد آگ پر فوری طور پر قابو پالیا گیا اور جہاز کے عملے کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔ ایک ماہ کے اندر سعودی انرجی انفرا سٹرکچر پر ہونے والا یہ چوتھا حملہ ہے۔ ان حملوں کے سبب سعودی عرب کی اس بندرگاہ کو بند کر دیا گیا ہے جو سعودی عرب کے لیے تجارتی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔

ان حالیہ واقعات کے بعد بحر احمر میں بحری جہازوں کی سکیورٹی سے متعلق خدشات غیر معمولی حد تک بڑھ گئے ہیں جبکہ یہ عالمی ترسیل اور توانائی کی فراہمی کے لیے ایک اہم ٹرانزٹ علاقہ ہے۔ گزشتہ  برس امریکا اور ایران کے باہمی تعلقات میں غیر معمولی کشیدگی پیدا ہوئی تاہم یہ زون کافی حد تک اس کشیدگی سے متاثر ہونے سے بچا ہوا تھا۔

ایک ڈیٹا تجزیاتی فرم کے مطابق آئل ٹینکر بی ڈبلیو رائن گزشتہ ہفتے یانبو کی آرامکو ریفائنری سے 60 ہزار میٹرک ٹن تیل لے کر جدہ کی بندرگاہ پر لنگر انداز ہوا تھا تاکہ اس سعودی بادشاہت میں اس کی کھپت ہو سکے۔ بی ڈبلیو گروپ میں شامل ایک ٹینکر کمپنی ہائفنا‘ جو مذکورہ بحری آئل ٹینکر کی مالک ہے اور اسے آپریٹ کرتی ہے، نے کہا ہے کہ اس آئل شپ پر بیرونی حملہ ہوا جس کے نتیجے میں ایک دھماکہ ہوا اور آگ بھڑک اُٹھی۔ تاہم اس پر سوار تمام 22 ملاح کو بغیر کسی نقصان کے بچا لیا گیا انہیں کسی قسم کے زخم نہیں آئے۔ بعد ازاں آگ بجھانے والے عملے نے آگ پر قابو پالیا۔ اس بیان میں مزید کہا گیا کہ امکاناً اس جہاز کے ارد گرد کا کچھ پانی آلودہ ہو گیا ہے تاہم کمپنی اس واقعے سے ہونے والے نقصان کا اندازہ لگا رہی ہے۔

سعودی عرب کی طرف سے دھماکے کے گھنٹوں بعد تک اس کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ دریں اثناء برطانوی میرین ٹریڈ آپریشنز‘ جو برطانیہ کی شاہی بحریہ کے زیر انتظام کام کرتی ہے، نے اس علاقے میں بحیر جہازوں کو احتیاط برتنے کی تنبیہ کی اور کہا کہ اس واقعے کے بارے میں ابھی تحقیقات جاری ہیں۔ اس کمپنی نے بعد ازاں کہا کہ جدہ کی بندرگاہ کو غیر معینہ مدت‘ کے لیے بند کر دیا گیا ہے۔

ڈرائیارڈ گلوبل‘‘ بحری انٹلیجنس کی ایک کمپنی ہے، نے بھی اس واقعے کی تصدیق کر دی ہے۔ تبصرے کے لیے درخواست کے باوجود امریکی بحریہ کے پانچویں فلیٹ نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ یاد رہے کہ یہ امریکی فلیٹ مشرق وسطیٰ کے پانیوں پر مسلسل گشت اور اس کی نگرانی پر مامور ہے۔

اب تک کسی جانب سے اس واقعے کی کوئی وجہ سامنے نہیں آئی ہے۔ تاہم یہ دھماکہ گزشتہ ماہ ایک کان کے پھٹنے کے نتیجے میں ایک سعودی آئل ٹینکر کو نقصان پہنچنے کے بعد پیش آیا ہے جبکہ رواں ماہ کے اوائل میں یمن کے مشرق میں واقع نشتون کی چھوٹی بندرگاہ میں بھی ایک کارگو جہاز کو نشانہ بنایا گیا تھا۔  

یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغی سعودی عرب کے زیر قیادت یمن میں جاری طویل جنگ میں اس سے پہلے بھی سمندری بارودی سرنگوں کا استعمال کر چُکے ہیں۔ ڈرائیارڈ گلوبل‘‘ نے کہا ہے کہ اگر پیر کے دھماکے کے پیچھے حوثی باغی ہیں تو یہ ان کی اہداف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت اور ارادوں دونوں ہی میں ایک بنیادی تبدیلی کا مظاہرہ ہے۔

DW.com/urdu

Comments are closed.