کیا پاکستانی ریاست نے بنگلہ دیش کی علیحدگی سے کچھ سیکھا؟

رحمٰن بونیری

سنہ1971 میں پاکستان جن مسائل کی وجہ سے دولخت ہوا وہ آدھی صدی کے بعد بھی موجود ہیں۔
آدھی صدی قبل، 16 دسمبر کو پاکستان کے نوے ہزار فوجیوں نے ہندوستان کے سامنے ہتھیار ڈا لے تھے،پاکستان دو لخت ہوگیا تھا اور دنیا کے نقشے پر ایک نئے ملک کا نقشہ ابھرا تھا۔ اور آج بنگالی اس دن کو آزادی، فتح اور آزادی کے ہیروز کے یاد کے طور پر منا تے ہیں۔

آج بنگلہ دیش کے ایک اخبار بی ڈی نیوز کی شہ سرخی تھی:۔

سولہ16 دسمبر 1971 کو فتح کی روشنی نے بنگلہ دیش پر سے پاکستان کا اندھیرا ختم کیا”
اخبار کے مطابق آج کے دن نو مہینے سے جاری آزادی کی خونریز لڑائی کا خاتمہ ہوگیا۔

آدھی صدی قبل نیویارک ٹائمز ، ڈیلی ٹیلی گراف اور دیگر معتبر اخباروں نے لکھا، بنگلہ دیش کے گلی کوچوں میں خون کا سیلاب آیا تھا، تین ملین لوگوں کو ہلاک کیا گیا تھا، آدھے ملین خواتین کا ریپ ہوا تھا۔پاکستان کی افواج ان الزامات کو ہمیشہ سے رد کرتی رہیں ہیں، مگر انکے نقادوں کا ماننا ہے کہ فوج نے اس حوالے سے کی گئی تحقیق “حمودالرحمان کمیشن رپورٹ” کو دبایا ہے۔ تاکہ حقائق پر پردہ پڑا رہے۔

مورخین کے مطابق پاکستان کے حکمرانوں نے بنگال کے وسائل پر لاہور میں سڑکیں بنائیں، اداروں کو کھڑا کیا مگر بنگال کو نظر انداز کیا گیا، بنگالیوں کو نہ تو ترقی کرنے دی گئی اور نہ ہی انکی سیاسی طاقت کو مانا گیا۔

نوے کے عشرے میں پاکستان کے ڈان اخبار نے حمودالرحمان رپورٹ کے کچھ حصے شائع کیے تھے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ کہ اس وقت بنگال میں پاکستان کے فوجی کمانڈر اور مارشل لا ایڈمنسٹریٹر جنرل نیازی مشرقی پاکستان سے مغربی پاکستان غیر قانونی طور پر پان سمگل کرتےرہے۔1971 میں پاکستان جن مسائل کی وجہ سے دولخت ہوا وہ آج بھی زندہ ہیں۔ پاکستان کے روشن خیال سیاسی رہنماؤں کا ماننا ہے کہ بنگال میں پاکستانی افواج کا کردار شرمناک تھا جس کا انتہائی عبرتناک نتیجہ نکلا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک رہنما سینٹر فرحت اللہ بابر نے اسی مناسبت سے آج کے دن اپنی ٹویٹر پر لکھا ہے: “ 16 دسمبر قومی شرم اور دہشت کا دن ہے”۔انکے مطابق 1971کو افواج کا پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنا انتہائی شرمناک عمل تھا، وہ لکھتے ہیں بنگالی بھی اس وقت تک مارشل لا کو سہتے رہے جب تک کاکول کے تربیت یافتہ افسر وہاں سے غائب نہیں ہوئے۔

مورخین کے مطابق بنگلہ دیش میں پاکستان سے آزادی کی تحریک اس لیے شروع ہوئی تھی کہ بنگالی بھی مغربی پاکستان کی طرح اپنے آئینی اور اور قانونی حقوق چاہتے تھے وہ مساوی ترقی چاہتے تھے۔پاکستان کے دو لخت ہونے کو آدھی صدی گزرگئی ہے مگر مساوی ترقی اور آئینی حقوق کے مطالبے آج بھی ہورہے ہیں۔
پاکستان کے سابقہ قبائلی علاقوں سے اٹھنے والی تحریک پشتون تحفظ موومنٹ کے رہنماؤں کا ماننا ہے کہ افواج پاکستان نے انکے علاقوں میں عوام پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے ہوئے ہیں، شورش زدہ صوبہ بلوچستان کے تقریباً تمام قوم پرست جماعتوں کا کہنا ہے کہ وہاں کے عوام کے ساتھ زیادتیاں ہورہی ہیں۔ان کا ماننا ہے کہ افواج پاکستان کے منفی کردار پر تنقید کرنے والوں کو مار دیا جاتا ہے یا غائب کردیا جاتا ہے۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے راہنما کہتے ہیں کہ صوبہ پختونخوا میں فوج نے عقوبت خانوں میں ان لوگوں کو رکھا ہیں جن سے نہ انکے رشتہ دار مل سکتے ہیں اور نہ ہی انکو وکیل کرنے کا حق دیا جاتا ہے ۔ پشاور ہائی کورٹ نے ان عقوبت خانوں کو غیر قانونی قرار دیکر ختم کرنے کا حکم جاری کیا تھا، جسے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا۔

فوج اور حکمران جواباً پی ٹی ایم پر دشمن ممالک کے کہنے پر ملک کے خلاف کام کرنے کا الزام لگاتے ہیں مگر ان الزامات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا جاتا۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار عطااللہ مینگل نے گزشتہ ہفتے لاہور میں پاکستان ڈیموکریٹک مو ومنٹ کے جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر افواج پاکستان پر انتہائی سخت الفاظ میں تنقید کی تھی، انہوں نے کہا کہ ستر سالوں سے ملک کو نیزوں کے زور پر چلایا جارہا ہے۔ انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا تھا کہ اب پی ڈی ایم ان آمرانہ سوچ رکھنے والوں کے جنازے نکالے گی۔

اختر مینگل نے اپنی تقریر میں بلوچسان کی تباہی کا نقشہ بیان کرتے ہوئے کہا تھا، ستر سال سے بلوچ ظلم سہ رہے ہیں، انکے مطابق بلوچستان سے شورش کی تحریکیں اس لیے ٹھ رہی ہیں کہ وہاں پر گاؤں ویران کرد یئے گئے ہیں، بچوں کو مارا گیا ہیں، بہنوں کی سروں سے دوپٹے اتارے گئے ہیں، اور ماؤں کے آنکھوں کے سامنے انکے جوان بچوں کو تڑپا تڑپا کر مارا گیا ہیں۔ انکے مطابق اسکے ذمہ دار غیر جمہوری ادارے ہیں۔

افواج پاکستان کے ترجمان ادارے نے اس سلسلے میں ماضی میں جو وضاحتیں پیش کیں ہیں اسکے مطابق مُٹی بھر لوگ دشمن کے ورغلانے پر اپنے ملک کے خلاف سازشیں رچارہے ہیں، انکے مطابق فوج نے کوئ غیر قانونی کام نہیں کیے ہیں اور ملک دشمن کاروائیوں کو برداشت نہیں کیا جائگا۔ فوج یہ بھی کہتی ہے کہ بلوچ سرداروں نے غریب عوام کو ہمیشہ دبائے رکھا ہے اور یہ کہ عوام شورش پسندوں کے ظلم کے شکار رہے ہیں۔

واشنگٹن میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی نے 16 دسمبر کو اپنی ایک ٹویٹ میں پاکستانی حکمرانوں کو مشورہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ اپنے عوام کو سب اچھا ہے جیسا جھوٹ بولنے سے مزید گریز کیا جائے۔ حسین حقانی کے مطابق حکمران ا پنے عوام کو جو جھوٹے سبز باغ دکھاتے ہیں حقیقت اسکے برعکس ہیں، انہوں اپنی ٹویٹ میں 15 دسمبر 1971 کو جنرل نیازی کی نامہ نگاروں سے بات چیت کی وہ ویڈیو بھی پوسٹ کی ہے جس میں جنرل نیازی آخر تک لڑنے اور ہتھیار نہ ڈالنے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر اگلے ہی دن نوے ہزار فوجی سرینڈر کر جاتے ہیں۔

پاکستان کے تین دفعہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کی بیٹی اور پی ڈی ایم کی راہنما مریم نواز شرف نے بھی سولہ دسمبر کو ٹویٹ کرتے ہوئے فوجیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ لکھتی ہیں کہ 49 برس پہلے آج ہی کے دن قائد اعظم کا پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس لیے کہ ایک ڈکٹیٹر نے عوام کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کیا۔ ووٹ کی عزت پامال کی۔ حمود الرحمن کمیشن کی سفارشات کو ٹھکراتے ہوئے آج بھی ووٹ کی عزت پامال کی جا رہی ہے۔ اب یہ نہیں ہو گا۔قوم جاگ چکی۔

(یہ مضمون وائس آف امریکہ پشتو ڈیوہ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا، جسے پشاور سے صحافی عمران خان نے نیا زمانہ کے لے ترجمہ کیا)

Comments are closed.