کیا قاعداعظم نے واقعی اردو کو قومی زبان قرار دیا تھا؟

بصیر نوید

جناح نے کبھی نہیں کہا کہ اردو قومی زبان ہوگی، یہ ایک گمراہ کن تاثر پھیلایا گیا کہ قائد اعظم نے ریس کورس گراؤنڈ ڈھاکہ کے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اردو ہوگی۔ یہ قطعی درست بات نہیں تھی لیکن انکی انگلش تقریر کو غلط معنی پہنا کر ایک نفرت کی مستقل دیوار کو کھڑا کردیا گیا۔

اس تاثر کو پھیلانے کے ذمہ دار ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والی بیوروکریسی یا نوکر شاہی اور پنجاب کی انگریز کی تربیت یافتہ نوکر شاہی رہی ہیں جو جاگیردارانہ طبقے سے تعلق رکھتی تھی۔ جو بھارت سے ہجرت کرکے بیوروکریسی اور بابو لوگ آئے تھے انکا تو اس دھرتی سے یعنی مشرقی یا مغربی پاکستان کے کسی بھی علاقے سے سرے سے کوئی تعلق نہیں تھا، وہ تو حاکمیت کرنے آئے تھے کیونکہ انکی نظر میں پاکستان جن علاقوں پر بنا ہے وہاں تعلیم کم تھی اور پاکستان سرکاری ملازمین سے خالی ہے۔

انہیں معلوم تھا کہ پنجاب کئی لحاظ سے انگریزوں کا منظور نظر ہے لہٰذہ انہوں نے پنجاب کی جانب ہجرت نہیں کی بلکہ پنجاب کے ساتھ یہاں کی مختلف قوموں کے خلاف ایک مضبوط اتحاد بنالیا۔ بھارت سے جو آبادی مشرقی پاکستان گئی وہ بہار اور کلکتہ کے لوگ تھے جو کراچی یا مغربی پاکستان سے دور تھے لہذا فوری طور پر مشرقی پاکستان میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے۔

یہ دوسری بات ہے کہ جنرل ایوب خان کے دور میں پختون بیوروکریسی نے مہاجروں کا پنجاب سے اتحاد توڑ کر خود پنجاب کی ڈھال بن گئے۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ پختون فوج میں چلے گئے لیکن اردو بولنے والے مہاجرین فوج کی نوکری کو کم ہی خاطر میں لاتے تھے۔بلکہ وہ اسے چوکیداری کی نوکری سمجھتے تھے۔‌پنجابی اور مہاجر بیوروکریسی دونوں ایک مضبوط مرکز کے حامی تھے بلکہ پاکستان کا مطلب بھی یہی لیا جاتا تھا اور دوسرا احسان یہ تھا کہ ہم لٹ پٹ کر آئے ہیں اور پاکستان کیلئے جان اور مال کی قربانی دی ہے لہذا حاکمیت پر بھی ہمارا حق ہے۔

پنجابی مہاجر الائنس کسی ایسی مضبوط بنیاد کی تلاش میں تھا جس کے ذریعے مرکز گریز قوتوں کو کمزور کیا جائے اور مضبوط مرکز ہی کو پاکستان کی بنیاد ٹھہرایا جائے۔ یہ الائنس مختلف زبانوں سے بھی پریشان تھا جو کہ قوموں کےوجود کی تصدیق کرتی ہیں۔ سب سے ضروری تھا کہ پاکستانیوں کو ایک قوم بنایا جائے۔‌ قائد اعظم نے ایسی طاقتوں کو موقع فراہم کردیا جو مضبوط مرکز اور پاکستانی ایک قوم کے حامی تھے۔ اسمیں ان مولویوں کی بھی خدمات لی گئیں جو پاکستان تحریک اور پاکستان کے قیام کیخلاف تھے۔

مارچ 1948 میں مشرقی پاکستان میں بنگالی کو اردو کے مساوی درجے دینے کی تحریک چلی ۔بنگالیوں کا کہنا تھا کہ نوٹوں، سکوں اور ڈاک کے ٹکٹوں پر بنگالی زبان میں بھی لکھا ہونا چاہئے۔ اس تحریک میں کئی افراد مارے گئے تھے اور تحریک تھم بھی نہیں رہی تھی۔ جناح صاحب نے ریس کورس میدان میں اردو کے بارے میں کہا تو کچھ اور تھا مگر اسکی گمراہ کن تفسیر یا تشریح کرکے اردو کو قومی زبان کا دیدیا۔بلکہ قائد اعظم نے مختلف قومی زبانوں کی نفی بھی نہیں کی۔ جناح صاحب نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ اردو پاکستان کی اسٹیٹلینگوئج ہوگی یعنی ریاست یا ملک کی سرکاری زبان ہوگی۔ انہوں نے کہیں بھی لفظ نیشنل لینگوئج (قومی زبان) کا استعمال نہیں کیا۔ بلکہ انہوں نے تجویز دی کہ ریجنل لینگویجز یعنی علاقائی زبانوں (قومی زبانوں) کو صوبوں میں رائج کیا جاسکتا ہے۔ سارے ملک کیلئے ایک سرکاری زبان ہونی چاہئے۔

وہ بالادست قوتیں جن کا یہاں کی زمین سے تعلق نہ تھا یا جو انگریز کی خوشامدوں پر حاکم بنائے گئے تھے انہوں نے جناح صاحب کی تقریر کا غلط ترجمہ کرکے غلط مطلب نکالا اور یوں اردو کو قومی زبان کا درجہ دیکر تمام قومی زبانوں کی نفی کردی گئی۔ ریڈیو پاکستان کے آرکائیوز میں سے تقریر نکال کر اس بات کی تصدیق کی جاسکتی ہے کہ جناح صاحب نے اردو کو اسٹیٹ لینگوئج قرار دیا اور کبھی نیشنل لینگوئج نہیں کہا۔ مگر ریاست پر حاوی انگریز کے بابوؤںابو لوگوں نے اسٹیٹ لینگوئج کا لفظ ہٹا کر نیشنل لینگوئج کردیا۔‌گمراہ کن معنی دیکر ہم نے ملک کی مختلف قومی و علاقائی زبانوں کا گلا گھونٹ کر پاکستانی ایک قوم ہے کا نعرہ دیا جس کے نتیجے میں ملک ٹوٹ گیا، فوج اصل حاکم بن گئی، مختلف صوبے مرکز کے سخت دشمن بن گئے ہیں۔

مشرقی پاکستان میں اکثریت نے بنگلہ زبان کو قومی زبان بنانے کی شاندار تحریک چلائی، مگر وہاں مرکز کا ساتھ دینے والے جب ایک بار پھر لٹ پٹکر سندھ پہنچے تو انہوں نے یہاں اردو کا جنازہ ہے کی تحریک چلائی اور سندھی زبان کی اسی طرح سے مخالفت کی جس طرح بنگلہ زبان کی کرتے تھے۔

مگر حیران کن امر یہ تھا کہ جنہوں نے بنگلہ زبان کی تحریک کی پرجوش حمایت کی تھی وہ سندھ دشمنی میں سندھی زبان کی قومی تحریک کی مخالفت بن گئے۔ سابقہ صوبہ سرحد میں ولی خان اور مفتی محمود کی حکومت تھی انہوں نے پختون زبان کو ترویج دینے کی بجائے اردو کو پختونخواہ کی سرکاری زبان جبکہ بلوچستان میں سردار عطا اللہ مینگل اور غوث بخش بزنجو کی تھی حکومت بلوچی زبان کی بجائے اردو کو صوبے کی سرکاری زبان قرار دیدیا۔ان دونوں حکومتوں نے صرف بھٹو دشمنی میں اپنے اپنے صوبوں کے عوام کو نہ صرف انکی مادری زبانوں سے محروم رکھا بلکہ انکی ترقی یا رسم الخط کو ایجاد کرنے پر بھی کبھی کوشش نہیں کی۔۔۔صرف سندھی دشمنی میں۔ اس لئے کہ اپنے ہی دوست سندھ کو ایک کالونی سے زیادہ نہیں کا درجہ نہیں دیتے ہیں۔

 

Comments are closed.