کریمہؔ بلوچ: ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہرو جمال ، لہو میں غرق مرے غمکدہ میں آتے ہیں

منیر سامی

بلوچ حقوق کی ممتاز عمل پرست کریمہ بلوچ  کی ناگہانی اور پر اسرار موت پر یہ ہمارا دوسرا کالم ہے۔ ایسی با عمل اور ثابت قدم عمل پرست پر لازم ہے کہ بار بار لکھا جائے اور سب کو یاد  دلایا جاتا رہے کہ ، ہمارے ظالم ، حق پرستوں اور حق کا مطالبہ کرنے والوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔

اس سے پہلے کہ ہم کریمہ بلوچ  کی پر اسرار موت کے قانونی یا سیاسی پہلوئوں کا جائزہ  لیں، ہم آپ کو فیض احمد فیض کی ایک بے مثال نظم پیش کر تے ہیں، جو انہوں نے شایدحق کے ان ہی متوالوں کے لیئے لکھی ہو گی۔ اور جو کریمہ بلوچ پر صادق آتی ہے۔

گڑھی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچہ میں

ہر ایک اپنے مسیحا کے خون کا رنگ لیے

ہر ایک وصلِ خدا وند کی امنگ لیے

کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں

کسی پہ قتلِ مہہِ تاب ناک کرتے ہیں

کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم

کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرت ہیں

ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال

لہو میں غرق مرے غم کدے میں آتے ہیں

ہر آئے دن مری نظروں کے سامنے اُن کے

شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں

اس نامکمل سے خراجِ عقیدت کے بعد ہر کریمہ بلوچ کی پر اسرا موت کے بارے میں کچھ سیاسی اور قانونی معروضا ت آپ کے سامنے رکھتے ہیں۔

کریمہ بلوچ کے انتقال کے بعد  پاکستان، بنگلہ دیش، کینڈا ، اور دیگر ممالک میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ ایسا ہی ایک مظاہرہ ، 29 دسمبر کو واشنگٹن ڈی سی میں ہوااور تیس تاریخ کو نیویارک میں بھی ہو رہا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ کریمہ بلوچ، بلوچ عوام کے حقوق کی جدو جہد کی ایک اہم رہنما تھیں۔ ان کی اس اس جدو جہد کے عوامل میں اس تحریک میں شامل ان کے قریبی عزیزوں کی گمشدگی اور بعد میں لاشوں کا پایا جانا شامل ہے۔ ان کے کینیڈا میں پناہ لینے کے بعد ان پر دباؤ ڈالا گیا کہ وہ کینیڈا سے واپس آجائیں جس کے بدلے میں ان کے ایک گرفتار عزیز کو رہا کر دیا جائے گا۔ ان کے انکار پر ان کے عزیز لاش گھر بھیج دی گئی۔

کینیڈا آنے کے بعد سے وہ کینیڈا کی حلومت اور اقوام متحدہ کے مختلف اداروں کے سامنے بلوچ عوام کا موقف پیش کرتی رہیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کے بارے میں بھی وہی پر و پیگنڈا  کیا گیا جو پاکستان میں ہر جمہوری مطالبہ کرنے والے کے بارے میں کیا جاتا ہے۔ وہ  یہ کہ ایسا مطالبہ کرنے والے ملک دشمن ہیں، یا ہندوستان کے ایجنٹ ہیں۔ اس کی رکیک ترین مثال حال ہی میں عمران خان کا وہ وہ بیان ہے جس میں، انہوں نے، فوج کے سیاسی معاملات میں مداخلت کے خلاف بیان دینے والے  ہر سیاست دان کو بھارت کا ایجنٹ قرار دیا ہے۔ ان میں نواز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو، فضل الرحمان ، اور دیگر بلوچ رہنماؤں کو ایک ہی رنگ میں دکھایا گیا ہے۔  

اب سے چند سال قبل جنرل مشرف نے جن پر اکبر بگٹی کے قتل کا الزام لگا تھا، یہ کہا تھا کہ دنیا میں جہاں بھی بلوچ عمل پرست پناہ لیں انہیں وہاں قتل کیا جائے۔ اب سے چند ماہ قبل ایک اور بلوچ عمل پرست ساجد حسین یورپ میں پر اسرار طور پر مردہ پائے گئے۔ کینیڈا میں کریمہ بلوچ اسی طرح مردہ پائی گئیں۔ ایسے معاملات میں شبہ لا محالہ مختلف ممالک کے جاسوسی اداروں  ہی کی طرف جاتا ہے۔ جن کے طریقوں کے بارے میں ایک شاعر نے کہا تھا کہ: دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ ۔۔۔ تم قتل کرو ہے کہ کرامات کرو ہو۔

جب ایسے اداروں پر شبہ کہا جاتا ہے تو عام طور پر قوم پرست عوام ایسے اداروں کے دفاع میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کریمہ کی موت کے بعد ہم سوشل میڈیا پر  اسی دفاع کی باز گشت سن رہے ہیں۔

کریمہ بلوچ کی موت کے بعد ٹورونٹو پولیس نے کچّا پکّا سے بیان دے کر شبہات کھڑے کر دیئے۔ انہوں نے چند ہی گھنٹہ میں یہ فیصلہ سنا دیا کہ ہمیں اس معاملے میں کوئی مجرمانہ عمل نظر نہیں  آیا  ہے۔ یہ وہی پولیس ہے جس کی ان معاملات میں کا ر نہ کردگی کی کئی مثالیں موجود ہیں۔ اس بیان کے بعد وہ لوگ جو ظلم کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے یہ خبریں اڑانے لگے کہ کریمہ بلوچ نے خود کشی کر لی تھی۔ جب کہ پو لیس نے اپنے بیان میں ایسا کہیں ذکر نہیں کیا تھا۔ اس لیے کہ پولیس کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں تھا۔ اور یہ اعلان کرنا پولیس کا کام ہی نہیں ہے۔

اس کالم کے لکھتے وقت حقیقت یہ ہے کہ آج کریمہ بلوچ کی موت کے سات دن کے بعد تک ان کی لاش ان کے عزیزوں کے حوالے نہیں کی گئی ہے۔ شاید  یہ لاش اب تک سرکاری اداروں کے پاس ہی ہے جو شاید اس کی طبی تفتیش کرکے موت کا سبب جاننے کی کوشش کر رہے ہوں۔

کریمہ کے عزیز اور ان کی موت پر سوگوار دیگر عمل پرستوں کا سنجیدہ اور مسلسل مطالبہ ہے کہ کینیڈا  کی حکومت اور ٹورونٹو پولس کے اہلکار اس موت کی مکمل رپورٹ شائع کریں۔ وہ  کورونر کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ جسے قانونی زبان میں کورونر انکویسٹ  کہا جاتا ہے۔ جب تک واضح طور پر یہ رپورٹ  سامنے نہیں آئے گی، شبہات جاری رہیں گے۔

ہمیں یہاں اس با ت کا اعادہ کرنے میں کئی تکلف نہیں ہے کہ کسی بھی سیاسی یا انسانی حقوق  کے ہر عمل پرست کی پر اسرار موت پر شبہہ ہمیشہ ان ہی عناصر پر جائے گا، جو خفیہ یا علانیہ  ایسے معالات میں شریک رہتے ہیں۔ ایسا  لاطینی امریکہ میں بھی ہوتا ہے، افریقہ میں بھی، پاکستان میں بھی، سعودی عرب میں بھی ، اور کینیڈا میں بھی۔  یہ عناصرکون ہیں آپ خود سوچیں ۔۔

Comments are closed.