ایسٹبلشمنٹ کا مخمصہ

ایمل خٹک  

مقتدر قوتوں نے عمران خان کو برسراقتدار لاکر نیا سیاسی تجربہ کیا ۔ حالات اور واقعات بتا رہے ہیں کہ اس بار گھاٹے کا سودا ہوا ہے ۔ ایسٹبلشمنٹ کی مشکلات میں اضافہ اور اصل امتحان تو موجودہ حکومت کو برسراقتدار لانے کے بعد شروع ہوا ہے۔   چونکہ حکومت چلانا ان کی بس کی بات نہیں اس وجہ سے ایسٹبلشمنٹ کو وقتا فوقتا حکومت کو سہارا اور سنبھالا دینے کیلئے بالواسطہ یا بلاواسطہ مداخلت کرنی پڑتی ہے ۔ 

ایسٹبلشمنٹ جتنی زیادہ حکومت کی مدد کیلئے آتی ہے اتنی زیادہ وہ ایکسپوز اور عوامی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے راہنما مقتدر قوتوں پر سیاسی انجنیئرنگ کے سنگین الزامات لگا رہی ہے اور عدلیہ ، پارلیمان اور میڈیا وغیرہ کو کنٹرول کیلئے بعض افسران کا نام تک لے رہی ہے۔  چاہتے اور نا چاہتے ہوئے بھی بڑھتی ہوئی سیاسی محاذ آرائی ایسٹبلشمنٹ کو پردے کے پیچھے سے اکھاڑے میں لے آئی ہے۔ 

جس ننگے طریقے سے عمران خان کو برسراقتدار لانے کیلئے سیاسی انجنیئرنگ کی گئی اور عمران خان کے ممکنہ حریف یعنی میاں محمد نواز شریف اور اس کی صاحبزادی کو انتخابی عمل سے باہر رکھنے کیلئے جو سازشیں کی گئیں اور جس طرح الیکشن چوری ہوئے وہ سب کے سامنے اور سب جانتے ہیں ۔ اب یہ ایک کھلا راز ہے کہ سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے دور میں بری طرح عدلیہ کوسیاسی انجنیئرنگ کیلئے استعمال کیاگیا ۔

عمران خان کا المیہ یہ ہے کہ نہ تو وہ ابھی تک اپوزیشن موڈ سے باھر نکلا اور نہ ہی ان کی متکبرانہ اور اناپرست رویہ اس کو اپوزیشن کو ساتھ لیکر چلنے اور انتقام جوئی کی بجائے مفاہمانہ سیاست اختیار کرنے دے رہی ہے ۔ اس کی طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں بلکہ مقتدر قوتیں ہیں اس وجہ سے اس نے زیادہ توقعات ان سے وابستہ کی ہیں۔ دوسری طرف اپوزیشن کی سخت شرائط کے پیش نظر مقتدر قوتوں کے پاس بھی عمران خان ہی بہترین آپشن ہے ۔ عمران خان اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے ۔ 

یہ اور بات ہے کہ مقتدر حلقوں کو اردو کے اس مقولے کے مصداق کہ نادان دوست سےہوشیار دشمن اچھا ہوتا ہے یہ احساس بھی ہورہا ہے کہ نادان دوست کی نالائقی ، نااہلی اور خراب طرز حکمرانی کی سزا ان کو بھی ان پر بڑھتی ہوئی تنقید اور عوامی غم وغصہ کی شکل میں مل رہی ہے۔ شدید سیاسی صف بندی اور عوامی موڈ کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اپوزیشن پر ممکنہ حکومتی کریک ڈاؤن یا احتساب کے نام پر انتقام جوئی کے اقدامات سےسلیکٹیڈ سے زیادہ سلیکٹرز پر انگلیاں اٹھ رہی ہیں ۔ 

پولیٹیکل انجنیئرنگ اور خاص کر میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے آکسیجن ٹینٹ میں رکھی حکومت کو زندہ رکھا جارہا ہے ۔ اس سے عارضی طور پر حکومت کو کچھ مہلت تو مل سکتی ہے ۔ مگر یہ معاشی بدحالی ، مہنگائی اور بیروزگاری کی ماری عوام کی زندگی میں آسائش اور آسانیاں نہیں پیدا کرسکتی ۔ میڈیا مینجمنٹ کے ذریعے اپوزیشن کی کردارکشی ، جلسوں کو کم کرکے پیش کیا جاسکتا ہے اور اس کی صفوں میں دڑاریں اور انتشار تو پیدا کیا جاسکتاہے مگر اس سے نالائق اور نااہل حکومت کی خراب طرز حکمرانی بہتر نہیں ہوسکتی ۔  

مردہ جانور کو کنویں سے نکالے بغیر چاہے جتنی پانی کی بالٹیاں نکالی جائے کنواں صاف نہیں ہوگا ۔ طرز حکمرانی بہتر بنائے ، مہنگائی کے جن کو بوتل میں بند ، اور بیروزگاری کے خاتمے کے بغیر عوام کی زندگی میں بہتری نہیں آسکتی۔ حکومت کو آکسیجن ٹینٹ میں رکھ کر مصنوعی طور پر زیادہ دیر تک زندہ نہیں رکھا جاسکتا۔ مقتدر قوتوں کی بار بار کی یاددہانیوں اور حکومت کی یقین دہانیوں کے باوجود حکومت کی کارکردگی بہتر ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے ۔ عمران خان نے ڈھائی سال امور مملکت سیکھنے کے نذر کیے۔اب اعتراف کررہا ہے کہ کرکٹ کھیلنا اور امور مملکت  میں فرق ہے۔ باقی مدت نئے تجربات میں گزرجائیگا۔ 

مگر عمران خان کی حکومت ایسٹبلشمنٹ کو اس حوالے سے سوٹ کرتی ہے ۔ کہ ایک تو اس کی آمرانہ ذہنیت  اسٹبلشمنٹ کے جمہوریت دشمن ایجنڈے کے فروغ خاص کر میڈیا پر قدغنیں اور اختلاف رائے کو دبانے میں ممدو معاون ثابت ہورہی ہے ۔  حکومت نے ریاستی اداروں کی سنگین انسانی حقوق خلاف ورزیوں مثلا جبری گمشدگی ، ماوراء عدالت قتل حتی کہ پشتون تحفظ مومینٹ کی حامی دو ارکان اسمبلی کےخلاف  بےبنیاد مقدمات کے قیام، خلاف ضابطہ گرفتاریوں، صوبہ بدری وغیرہ پر مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہے جو ایسٹبلشمنٹ کی سہولت کاری کے مترادف ہے ۔  اس طرح عمران خان کی طرح نوازشریف سمیت بعض اپوزیشن راہنما ایسٹلبشمنٹ کے بھی انتہائی ناپسندیدہ ہیں۔ 

حکومت کی کرپشن کے غبارے سے حکومتی ارکان اور عمران خان کی اے ٹیمز اور سپانسرز کی میگا کرپشن اسکینڈلز نے ہوا نکال دی ہے ۔ رہی سہی کسر عمران خان کے بہنوئی کے پلاٹ کا قبضہ چھڑانے کیلئے آئی جی کے تبادلوں کے اعترافی بیان اور بنی گالہ محل کو ریگولرائیز کرنے کے عمل نے پوری کردی ۔  بنی گالہ محل کی غیرقانونی تعمیر سے لیکر اس کے منی ٹریل ، این اوسی اور اس کی ریگولرائیزیشن پراسس  تک کئی سوالات کے جوابات ابھی تک تشنہ ہے۔ 

پاکستان کی سیاسی  تاریخ گواہ ہے کہ عوامی غم وغصہ کو دبانے اور کچلنے کی کوششوں کا نتیجہ ہمیشہ اچھا نہیں نکلا ۔ اظہار رائے پر پابندیوں کا نتیجہ گھٹن اور تناؤ کی صورت میں نکلتا ہے اور گھٹن کی فضا عوام کو پھر انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور کرتی ہے۔  لگتا ہے کہ حکومت اور اس کے سرپرستوں نے اپوزیشن کی تحریک کو دبانے کیلئے وہی روایتی طریقوں کا استعمال کرنا شروع کرنے کی ٹھانی ہے جو ماضی میں ناکام رہی ہیں اور جس کے نتیجے میں تحریکیں دبتی تو نہیں مگر زیادہ شدت سے ابھرتی ہے ۔ 

اس بار تو معاملہ بالکل مختلف اور انتہائی پیچیدہ ہے ۔ اپوزیشن حکومت کو سلیکٹیڈ پکارتی ہے اور اس کو کٹھ پتلی سمجھتی ہے اور اسے خاطر میں لائے بغیر اس کو لانے والوں یعنی ان کے سلیکٹرز کو برائے راست مخاطب کررہی ہے ۔ جو بھی سختی یا زیادتی ہوگی وہ سلیکٹرز کے کھاتے میں جائیگی۔ قطع نظر اس کے کہ یہ اچھا ہورہا ہے یا برا مگر حقیقت یہ ہے کہ سیاسی صف بندی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے اور ڈیڈلاک کی کیفیت ہے ۔ مذاکرات کے ذریعے کسی حل پر پہنچنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ہے ۔

پی ڈی ایم کی قیام کے بعد ایک مرحلے پر ایسٹبلشمنٹ نے غیرجانبداری کا تاثر  دینے کی کوشش کی مگر حالیہ کچھ اقدامات خاص کر اپوزیشن جماعتوں میں توڑ پھوڑ کی کوششوں سےغیرجانبداری کا تاثر زائل ہورہا ہے ۔ اور اپوزیشن راہنماوں کی نجی محفلوں میں مقتدر قوتوں پر حالیہ دھڑا بندیوں اور  انتشار کے الزامات کسی بھی وقت پبلک ہو سکتے ہیں ۔ بہت سے آزاد تجزیہ نگار سیاسی محاذ آرائی میں شدت اور ڈیڈلاک کی طوالت کا نتیجہ اپوزیشن اور مقتدر قوتوں کی برائے راست ٹکراؤ کی صورت میں نکلنے کے خدشے کا اظہار کررہے ہیں ۔ 

Comments are closed.