عوام کی شہید ملکہ


حسن مجتبیٰ

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجیو!۔

وہ چھوٹی سی بچی جس نے المرتضی لاڑکانہ میں اپنے باپ کے ہاتھوں بندوق سے فائر کرکے درخت پر سے ایک طوطے کو مارنے پر دو دن تک کھانا نہیں کھایا تھا وہ قتل ہوگئی۔ قاتلوں اور جرنیلوں، کرنیلوں کی سرزمین پر ایک نہتی اور واقعی بندوقوں سے نفرت کرتی لڑکی قتل ہوئی۔

رو میرے دیس رو کہ تیری ایک اچھی بیٹی قتل ہوئی۔‘

اسے القاعدہ یا طالبان نے مارا یا پاکستانی فوجی اسٹبلشمنٹ نے لیکن راولپنڈی سے ہمیشہ مقبول لیڈروں کی لاشیں پاکستان کے عوام کو بھیجی گئی ہیں۔

وہ ایسے قتل ہوئی ہیں جسے پاکستان میں پاپولر بھٹو قتل ہوتے ہیں۔ جیسے انڈیا میں اندرا گاندھی قتل ہوئيں۔ جیسے امریکہ میں کینیڈی اور یونانی المیائی کرداروں کا انجام

لیکن لوگو! بھٹو ققنس تھے جو اپنی راکھ سے بار بار پیدا ہوئے۔۔

پاکستان نے بینظیر کو قتل کردیا‘ میرے ایک دوست نےمجھ سے کہا۔

مجھے یاد آئی بہت برس بیتے جب کسی نے کہا تھا ’(بڑے) بھٹو کے بعد پاکستان دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔

میں حیران ہوں کہ بھٹو فیملی اور ان کے کروڑ ہا چاہنے والوں کے ساتھ ایسی کربلاؤں کے بعد پاکستان کا باقی رہنا معجزہ نہیں تو اور کیا ہے؟

اسلامی تاریخ میں خاندان رسول کے بعد وقت کےحکمرانوں کے ہاتھوں شاید اتنے بڑے المیے صرف بھٹو خاندان کے ساتھ ہوئے ہیں۔

لوگ سندھ سے لیکر سری نگر یعنی بدین سے بارہ مولا تک ماتم کناں ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ اس سے پہلے آپ نے یہ نظارہ یا جمال ناصر کی موت پر دیکھا تھا یا بھٹو کی موت پر۔

راولپنڈی میں بھٹو کی پھانسی کی جگہ پرگھاس اور جرنیلوں کے گولف کورس کی ہریالی کو کتنے مقبول اور محبوب سیاسی لیڈروں کا خون چاہیے ہوگا اے ارض وطن!۔

سی ون تھرٹی اور فوجی ہلی کاپٹروں میں چکلالہ سے سندہ کی طرف مقبول لیڈروں کی لاشیں کب تک

سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید کےگاؤں کے قریب بھی اس کی پیجارو جیپ پر حملہ کرکے اسے قتل کرنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن وہ بچ گئی تھیں کہ دو انتظامی افسران نے انہیں پہلے سے ہی اس سازش سے آگاہ کردیا تھا۔ بینظیر بھٹو نے روڈ کے ذریعے اپنا سفر منسوخ کردیا لیکن اپنی جیپ کو جانے دیا تھا جہاں اسی جگہ ان کی جیپ پر حملہ ہوا تھا۔

بعد میں سندھی قوم پرست رہنما جی ایم سید نے کہا تھا کہ ان کے ڈاکو مریدوں نے انہیں بتایا تھا کہ بینظیر کی جیپ پر انہوں نے حملہ ملٹری انٹیلجنیس ایجنسی کے ایک میجر عباس کے کہنے پر کیا تھا۔

تب سے لیکر آخر دم تک بینظیر کرنیلوں جرنیلوں اور قاتلوں کی سرزمین پر قاتلانہ حملوں کے نرغے میں رہی۔

سندھ کی اس ہرنی کو پاکستان کے تمام کتوں نےگھیر گھار کر جلاوطنی سے واپس لاکر چیر پھاڑ دیا۔جرنیل طاقتور اور پاکستان کے عوام لاوارث ہیں کہ انہیں ہیلی کاپٹروں میں اپنی محبوب لیڈر کی لاش بھیح دی گئی ہے۔

لیکن وہ سیفٹی والو جو صوبوں اور وفاق کے درمیان بینظیر بھٹو کی شکل میں تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔ وہ ایک فرد نہیں تھی۔ اک سوچ تھی۔ ایک عورت تھی۔ اک لیڈر تھی۔ بھٹو خاندان ملک پر واری گیا اور ملک فوجی جرنیلوں اور انکے کاسہ لیسوں پر۔

کیا اسے ان جرنیلوں اور ملاؤں نے ملکر مارا جو کہتے ہیں تیس روز کے بعد عورت کے بیٹھنے سے کرسی نجس ہوجاتی ہے؟

لیکن یہ قتل کی جانیوالی عورت عوام کی شہید ملکہ بن چکی۔

Comments are closed.