کیا ہندوستان میں بھی امریکہ جیسی ’بغاوت‘ ممکن ہے!۔۔۔

ظفر آغا

اس پر غور ہونا چاہیے کہ آخر 6 جنوری کی امریکی بغاوت کیوں ناکام رہی اور اگر کل کو ہندوستان میں کوئی ایسی کوشش ہوتی ہے تو کیا یہاں بھی وہ ناکام ہو پائے گی!۔

چھ جنوری 2021 محض امریکہ کے لیے ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے لیے ایک ناقابل فراموش دن بن گیا۔ نسل اور رنگ کی نفرت سے پر جس طرح گورے غنڈوں اور لچوں نے واشنگٹن میں واقع امریکی پارلیمنٹ میں گھس کر ہنگامہ آرائی بپا کی وہ ساری دنیا کے لیے ناقابل یقین تھی۔ بھلا کوئی یہ تصور کر سکتا تھا کہ دنیا کی سب سے پرانی جمہوریت اور خود کو ساری دنیا میں جمہوریت کا ٹھیکے دار بتانے والے امریکہ میں ہی جمہوریت کے خلاف ہی بغاوت اٹھ کھڑی ہوگی۔

جی ہاں، 6 جنوری کو واشنگٹن میں جو کچھ ہوا وہ ایک بغاوت تھی۔ اس بغاوت کا مقصد دراصل امریکہ میں نومبر میں ہونے والے چناؤ میں منتخب جو بائڈن کو کسی طرح برسراقتدار آنے سے روک کر صدر ڈونالڈ ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر بنانا تھا۔ اس عجیب و غریب بغاوت نے ساری دنیا کے ہر جمہوری ملک کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ کیا کل کو وہاں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آ سکتا ہے۔ کیونکہ امریکہ میں جو آج ہوتا ہے باقی دنیا میں وہی کل ہوتا ہے، خواہ وہ سیاست ہو یا پھر فیشن۔ ہر معاملے میں دنیا امریکہ کی ہی نقل کرتی ہے۔

اس لیے 6 جنوری کو امریکہ میں کیا ہوا، کیوں ہوا اور کیسے ہوا اس پر سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ ضرورت تو اس بات کی بھی ہے کہ اس بات پر بھی غور ہو کہ کیا کل کو ہندوستان میں اس قسم کے واقعات پیش آ سکتے ہیں۔ اس پر بھی غور ہونا چاہیے کہ آخر 6 جنوری کی امریکی بغاوت کیوں ناکام رہی اور اگر کل کو ہندوستان میں کوئی ایسی کوشش ہوتی ہے تو کیا یہاں بھی وہ ناکام ہو پائے گی!۔

چھ6 جنوری کو ایک کھلی بغاوت ہوئی جس کے ذریعہ جو بائڈن کو صدر ٹرمپ کو دوبارہ امریکی صدر بنانا تھا۔ لیکن جو بات امریکی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئی آخر وہ بات 6 جنوری کو کیسے پیش آ گئی! اس سیاسی گتھی کو سلجھانے کے لیے پلٹ کر 12 سال قبل امریکہ میں ہونے والے صدارتی چناؤ کی اہمیت کو سمجھنا ہوگا۔ 12 سال قبل سنہ 2008 میں امریکہ میں جو صدارتی چناؤ ہوئے تھے اس کے نتائج نے بھی دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا۔ وہ بھی تاریخ ساز چناؤ تھے کیونکہ امریکہ کی صدیوں پرانی تاریخ میں پہلی بار ایک سیاہ فام باراک اوباما نام کا شخص امریکی صدر منتخب ہوا تھا۔ یہ وہی امریکہ تھا جہاں کبھی افریقہ سے لائے گئے سیاہ فام غلاموں کی زندگی بسر کرتے تھے۔ ایک لمبی جدوجہد کے بعد بیسویں صدی میں ان سیاہ فام افریقیوں کو امریکہ میں برابری کے حقوق حاصل ہوئے۔ لیکن کسی نے اس وقت یہ تصور نہیں کیا تھا کہ انہی بلیک امریکن کے بیچ سے ایک روز باراک اوباما نامی سیاہ فام امریکی خود امریکہ کا صدر بھی بن جائے گا۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک حیرت ناک واقعہ ہی نہیں بلکہ ایک انقلاب تھا جس نے ساری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا۔

لیکن ایک ’بلیک امریکن‘ کے صدر منتخب ہونے سے سفید نسل کے صدیوں پرانے نظام کی چولیں ہل گئیں، کیونکہ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ساری دنیا کے گوروں کو اپنے رنگ اور نسل پر گھمنڈ ہے۔ وہ دنیا میں اپنے کو سب سے اعلیٰ نسل اور سب سے ذہین قوم تصور کرتے ہیں۔ ان کے یہاں ایک بڑے طبقے میں آج بھی یہ گمان پایا جاتا ہے کہ اللہ نے ان کو ساری دنیا پر حکومت کرنے کا اختیار دیا ہے اور اسی خیال سے متاثر گوروں نے ایک دور میں ہندوستان سمیت تقریباً ساری دنیا کو اپنا غلام بنا لیا تھا۔ لیکن تاریخ نے ہمیشہ ہر گھمنڈی کا گھمنڈ توڑا ہے۔

چنانچہ گوروں کے ساتھ بھی آخر تاریخ نے وہی کام کیا جو سکندر جیسوں کے ساتھ کیا۔ آخر دنیا بھر سے گوروں کی حکومت ختم ہو گئی۔ آخر یہ دن بھی آیا کہ گوروں کے سب سے نامور ملک امریکہ میں ایک سیاہ فام اوباما صدر منتخب ہو گیا۔ ظاہر ہے کہ اس بات سے گوروں کا نظام تلملا اٹھا۔ چنانچہ امریکہ میں جو انقلاب بپا ہوا تھا، اس کے خلاف امریکہ میں شدید رد عمل پیدا ہوا۔ امریکہ میں گوروں کے نظام نے بس اس وقت سے یہ طے کر لیا کہ وہ جلد ہی امریکہ میں گوروں کی عصبیت پر مبنی دوبارہ اپنی حکومت قائم کریں گے۔ اور آخر سنہ 2016 میں وہ نظام نفرت کی بنا پر اپنی سازش میں کامیاب ہو گیا۔ اور اس نظام کے کاندھے پر سوار ڈونالڈ ٹرمپ امریکہ کے صدر بن گئے۔ 6 جنوری 2021 کو اسی سفید عصبی نظام نے اسی ٹرمپ کو امریکہ میں جمہوری نظام کو کچل کر دوبارہ صدر منتخب کرنے کی کوشش کی، جو آخر وقت میں ناکام ہو گئی۔

یوں تو امریکی بغاوت ناکام ہو گئی، لیکن کیا اس سے امریکہ کا سیاسی و سماجی مسئلہ بھی حل ہو گیا! جی نہیں، امریکہ کا مسئلہ ابھی حل نہیں ہوا۔ یوں تو خود گوروں کی ایک کثیر تعداد اس رنگ و نسل کی عصبیت کی لعنت سے آزاد ہو چکی ہے۔ لیکن ابھی بھی گوروں کا نسلی نظام بہت مضبوط ہے۔ وہ اس قدر مضبوط اور ضدی ہے کہ اس نے 6 جنوری کو امریکہ کی تمام روایت کو بالائے طاق رکھ کر کھلی بغاوت بپا کر دی۔ ظاہر ہے کہ وہ نظام ہار مان کر چپ نہیں بیٹھنے والا ہے۔ اس لیے اب یہ لڑائی امریکی سڑکوں پر پھیل سکتی ہے۔ کیونکہ ڈونالڈ ٹرمپ بھلے ہی چناؤ ہار چکے ہوں لیکن ان کی گرفت اپنی ریپبلکن پارٹی پر اب بھی بہت مضبوط ہے۔ اس لیے وہ اس لڑائی کو اب سڑکوں پر ویسے ہی لے کر اتر سکتے ہیں جیسے کہ 6 جنوری کو انھوں نے کیا۔ اگر ٹرمپ اب بھی باز نہیں آئے تو یہ بھی ممکن ہے کہ امریکہ ایک شدید خانہ جنگی کا شکار ہو جائے جس کے اثرات امریکہ سمیت ساری دنیا کے لیے خطرناک ہوں گے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ میں 6 جنوری کو جو ہوا وہ ہندوستان میں بھی ہو سکتا ہے! اس سوال کے جواب میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کیا ہندوستان اور امریکہ کے سماجی پس منظر میں کوئی مطابقت ہے! اگر غور کریں تو پچھلے کچھ برسوں میں ہندوستان اور امریکہ کے سیاسی و سماجی حالات بہت حد تک یکساں ہیں۔

جیسے سنہ 2008 میں اوباما نے گوروں کی عصبیت پر مبنی نظام کی کمر توڑ دی تھی ویسے ہی ہندوستان میں سنہ 1990 کی دہائی میں پسماندہ اور دلت ذاتوں نے ہندوستان کا صدیوں پرانا ذات پات پر مبنی نظام توڑ دیا۔ اور لالو، ملائم و مایاوتی جیسے ہندوستان کے دلت اتر پردیش و بہار پر قابض ہو گئے۔ یہ بھی ایک جمہوری انقلاب تھا جس کے خلاف سَنگھ نے بابری مسجد کے تالا کھلنے کے بعد سے سنہ 2014 تک سخت مشقت کر مودی کو برسراقتدار پہنچا دیا۔ نریندر مودی بھلے ہی خود ایک پسماندہ ذات سے تعلق رکھتے ہوں لیکن وہ جس سَنگھ کے کاندھوں پر سوار ہیں وہ بھی تو گوروں کی عصبیت کی طرح مسلم اور غیر اعلیٰ ذاتوں کی نفرت میں ڈوبی ہوئی ہے۔ اس لیے جیسے ٹرمپ کی شکل میں امریکہ میں ایک کاؤنٹر انقلاب چل رہا ہے، ویسے ہی ہندوستان میں مودی بھی نفرت پر مبنی ایک کاؤنٹر انقلاب کے بانی ہیں۔

اس پس منظر میں اگر ہندوستان میں امریکہ جیسی بغاوت اٹھ کھڑی ہو تو یہاں اس بغاوت کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔ کیونکہ تمام تر کمزوریوں کے باوجود امریکی میڈیا اور آخر میں وہاں کے نظام نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اس کے برعکس ہندوستان میں میڈیا سمیت پورا نظام مودی کی گود میں بیٹھا ہوا ہے۔ اس لیے کل کو ہندوستان میں بھی 6 جنوری جیسے واقعات پیش آ سکتے ہیں اور ان حالات میں ایسی بغاوت یہاں ناکام نہیں ہوگی۔

بشکریہ:قومی آواز، نئی دہلی

Comments are closed.