پی ڈی ایم بنام سرکار 

ایمل خٹک

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی عوامی رابطہ مہم جاری ہے ۔ تین جنوری کو بہاولپور میں شاندار ریلی کے بعد تیرہ جنوری کو مالاکنڈ میں کامیاب جلسے کے انعقاد سے پی ڈی ایم میں انتشار کے خاتمے کے حکومتی دعوے غلط ثابت ہوئے ۔ پی ڈی ایم کے راہنما ثابت قدمی سے اپنی احتجاجی تحریک کو پلان کے مطابق مرحلہ وار لے لیکر چل رہے ہیں اور وقت اور حالات کے مطابق اپنی حکمت عملی ایڈجسٹ کرکے آگے بڑھ رہےہیں ۔ پی ڈی ایم نے اگر حکومت گرائی نہیں تو اس کی بنیادیں ہلا رہی ہے ۔ 

 پی ڈی ایم کے حوالے سے حکومت اور اس کی کنٹرولڈ میڈیا مسلسل ڈینائل موڈ یعنی اس کے وجود اور طاقت سے انکاری ہے ۔ شترمرغ کی طرح ریت میں آنکہیں چھپا کر سچائی چھپ نہیں جاتی ،  سچائی سے انکار سے سچائی اپنی جگہ رہتی ہے۔ پی ڈی ایم جیسی مختلف الخیال سیاسی جماعتوں پر مشتمل جمہوری اتحادوں کی اپنی حرکیات ہوتی ہے ۔اتحادوں میں اختلاف نظر ایک فطری امر ہے۔ اتحادوں میں عموما بنیادی مقاصد پر اتفاق رائے جبکہ طریقہ کار اور حکمت عملی پر اختلاف ہوتا رہتا ہے ۔ مگر اختلاف رائے کو آپس میں بحث و مباحثے کے ذریعے حل کرتے ہیں ۔   

پی ڈی ایم جو سیاست میں اسٹبلشمنٹ کی مداخلت کے خاتمے اور ووٹ کو عزت دو کا بیانہ لے کر چلی ہے نے پہلے مرحلے میں عوامی جلسوں اور ریلیوں کے ذریعے کئی اہداف حاصل کیے ہیں ۔ پی ڈی ایم عوامی ریلیوں اور جلسوں کے ذریعے اپنے بیانیے کو عوامی عدالت میں لے جارہی ہے ۔ پہلی کامیابی تو یہ ہے کہ پہلے حکومت کی جانب سے یکطرفہ پروپیگنڈا ہورہا تھا اور حکومتی بیانیے کو چیلنج کرنے کیلئے کوئی موثر آواز نہیں تھی ۔ اب اپوزیشن متبادل بیانیے کے ساتھ میدان میں ہے اور موثر انداز میں جواب دے رہی ہے۔ وزیراعظم دفاعی پوزیشن پر مجبور ہوگئے ہیں ۔ 

حکومتی ایوانوں میں پریشانی اور تشویش بڑھ رہی ہے ۔ کابینہ اجلاسوں میں حکومتی پالیسیوں اور اقدامات پر تنقید بڑھ گئی ہے ۔ عمران خان کی فرعونیت کی وجہ سے کابینہ اجلاسوں میں اکثر اختلاف نظر یا سخت تنقید سے اجتناب کیا جاتا تھا۔ اب اندرونی تنقید بڑھ رہی ہے اور اکثر نوبت تلخ کلامی تک پہنچ جاتی ہے ۔ اب کابینہ اجلاسوں میں کثرت سے  پی ڈی ایم کا حوالہ دیا جاتا ہے ۔ بعض وزراء اب کھلے عام یا دبے دبے الفاظ میں حکومتی پالیسیوں اور اقدامات سے لاتعلقی کا اظہار کررہے ہیں ۔   

پی ڈی ایم کے ھر اجلاس یا جلسے کے موقع پر حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسیں حکومت کی حواس باختگی کی طرف اشارہ کرتی ہے ۔ وزیراعظم کی بار بار ترجمانوں کے اجلاس بلانا اور ترجمانوں کی اپوزیشن کی بھرپور کلاس نہ لینے پر ان کی گوشمالی اور ھر بار اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے پر زور اور تکرار حکومت کی بدحواسی اور بوکھلاہٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ حکومت کی میڈیا پالیسی کا محور مین سٹریم اور سوشل میڈیا اپوزیشن کی کردار کشی اور ڈس انفارمیشن مہم ہے ۔  

حکومت کی کرپشن کے بیانیے کے تین جُز، لوٹا ہوا مال واپس لانا ، کڑا احتساب اور میرٹ کی بالادستی تھے۔ نیب ایک متنازعہ ادارہ بن چکا ہے ۔ حتی کہ اعلی عدالتیں اس کو پولیٹیکل انجینیرنگ کیلئے استعمال ہونے والا ادارہ قرار دے چکی ہے ۔ اور نیب کی گرفتاری ، تفتیش اور مقدمات کے پراسس میں کئی سنگین قانونی سقم کی نشاندہی کرچکی ہے ۔ نیب پر حکومتی کنٹرول کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاتا ہے کہ حکومتی وزراء نہ صرف مخالفین کی گرفتاریوں کی پہلے سے خوشخبری دیتی ہے  پہلےگرفتاریوں سے پہلے تحقیقات کو من پسند میڈیا کو لیک کرکے میڈیا ٹرا ئل شروع کر دیتی ہے ۔ 

اب حکومت کی کرپشن کے بیانیے کی غبارے سے ہوا نکل  رہی ہے ۔ حکومت اور خصوصا وزیراعظم کی پارسائی پر سوالات اٹھ رہے ہیں ۔ جیسے جیسے حکومت پر دباؤ بڑھتی ہے ترجمانوں کے اجلاس اور ان کے لھجے میں تلخی اور حواس باختگی بڑھ رہی ہے ۔ اور ان کے پاس کوئی نیا چورن بیچنے کیلئے نہیں ہے ۔ اپنے مسائل سے پریشان حال عوام کو اب این آر او اور کرپشن سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ اس طرح چینی ، آٹا اور گندم ، ادویات ، پیٹرولیم اور گیس کے میگا اسکینڈلز اور اس میں حکومتی شخصیات کے ملوث ھونے کے شواہد نے حکومتی بیانیے کی پر خچے آرا دئیے ۔ 

وزیراعظم کی اپنے بہنوئی کی  غیرقانونی پلاٹ پر قبضہ واگزار کرنے کیلئے آئی جی سمیت کئی اعلی پولیس افسران کے تبادلوں کے برملا اعتراف اور اپنے بنی گالہ گھر کو ریگولرائیز کرنے اور علیمہ باجی کے آمدن سے زیادہ اثاثے وغیرہ سے اس کی پارسائی کا پردہ فاش ہوگیا ہے۔ اس طرح بیرونی ذرائع سے پارٹی فنڈز لینے اور اس میں مبینہ خورد برد کے الزام کے حوالے سے الیکشن کمیشن میں دائر کیس سے فرار بھی اس کا پیچھا کررہی ہے ۔  میگا کرپشن اسکینڈلز میں عمران خان کے قریبی رفقاء اور مختلف مدوں میں اس کو فنڈز دینے والے سپانسرز کے ملوث ہونے کے شواہد اور ان کے خلاف کاروائی سے اجتناب اور بچانے کی کوشش نے کرپشن کے بیانیے کو خود دفن کیا۔ 

طرز حکمرانی کا یہ حال ہے کہ اہم وفاقی وزارتوں اور محکموں کے سیکرٹریز اور عہدیداروں کے تبادلے تواتر سے ہورہے ہیں ۔ بدعنوانی ، خراب کارکردگی اور بے قاعدگیوں پر وزیروں کو برطرف کرنے کی بجائے ایک وزارت سے ہٹا کر انہیں دوسری وزارت دیجاتی ہے۔ کئی وزراء کو کرپشن کے الزامات پر ہٹاکر اور اپنے وزراء اور جماعتی ارکان کے خلاف کاروائی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اور اس کا کریڈٹ لے کر اب ان میں سے اکثر دوبارہ حکومتی عہدوں پر فائز ہیں ۔ اعظم سواتی ، علیم خان ، عاشق فردوس اعوان وغیرہ کو پہلے کیوں ہٹایا گیا تھا اور اب دوبارہ انہیں اہم ذمہ داریاں سونپنے کی وضاحت  عمران خان ہی کرسکتے ہیں ۔ 

ملک کے سنجیدہ حلقوں اور حتی کہ حکومتی حلقوں میں  بھی کارکردگی دکھانے کی بجائے ترجمانوں کو اپوزیشن کو ٹف ٹا ئم دینے اور غلیظ اور بدبودار کردارکشی پر مامور کرنے کے حوالے سے بے چینی اور ناپسندیدگی پائی جاتی ہے اور کچھ مخصوص وزراء اور غیر منتخب مشیروں کے علاوہ زیادہ تر وزراء اس تمام عمل سے لاتعلق نظر آتے ہیں ۔ ٹی وی اسکرین گواہ ہیں کہ وزیراعظم کے شوق انتقام، مسلسل گوشمالی اور شدید دباؤ کی وجہ سے بہت سے نفیس اور سنجیدہ سمجھے جانے والے پی ٹی آئی کی شخصیات بھی غیر مہذب اور ناشائستہ رویہ اختیار کرنے پر مجبور ہیں ۔ 

کابینہ میں کئی سینیئر پارلیمنٹرین کی موجودگی کے باوجود جو امور حکومت چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں حکومت کی  ناتجربہ کاری کا اعتراف کرکے وزیراعظم نے دراصل اپنی نااہلی اور نالائقی کا ثبوت دیا ہے ۔ مسئلہ ٹیم ممبران کا نہیں بلکہ کپتان کی نالائقی کا ہے جو اپنی اناپرستی اور تکبر کی وجہ سے تجربہ کار کابینہ اراکین کی بجائے ناتجربہ کار اور زیادہ تر غیر منتخب مشیران پر اعتماد کرتے ہیں ۔ 

پی ڈی ایم کے اس بیانیے کہ وزیراعظم ایک سلیکٹیڈ وزیراعظم ہے اور ہماری لڑائی ان سے نہیں بلکہ عوامی مینڈیٹ پر ڈاکہ ڈال کر اور الیکشن چوری کرکے ان کو لانے والے سلیکٹرز یعنی اسٹبلشمنٹ سے ہے نے ملکی سیاست میں ھل چل مچا دی ہے ۔ اسٹبلشمنٹ پر سیاست میں مداخلت اور دھاندلی کے الزمات کوئی نہیں بات نہیں مگر اپوزیشن نے بعض اہم عسکری شخصیات کا برائے راست نام لیکر ان پر موجودہ حکومت کو برسراقتدار لانے اور حکومت کو سنبھالا دینے کا الزام لگاکر قومی سیاست میں ارتعاش پیدا کیا ۔ اس طرح سے اپوزیشن نے نہ صرف موجودہ حکومت کو سلیکٹیڈ کہہ کر اس کی قانونی اور اخلاقی جواز کو نشانہ بنایا بلکہ حکومت کو لانے والے سلیکٹرز یعنی اسٹبلشمنٹ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا ۔

اسٹبلشمنٹ کے اندر عمران کے رویے ، نالائقی اور نااہلی کے حوالے سے پائی جانے والی  ناراضگی اور بے چینی جو بوجوہ پہلے دبی رہی لیکن اب پی ڈی ایم کی حرکت سے مخالفانہ سوچ اور رائے بھی کھل کر سامنے آنے لگی ۔ اس طرح اب اپنی ساکھ اور وقار کو بچانا اداروں کی اولین ترجیح بنتی جارہی ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کے اندر  عمران خان کے حامیوں کی رائے کمزور ہو رہی ہے اور متبادل رائے قوی ۔ عمران حامی حلقے کارنر ہورہے ہیں ۔ اور وہ اب اسٹبلشمنٹ کیلئے بوجھ بنتے جارہے ہیں ۔ 

عمران خان حکومت نے جس طریقے سے سانحہ مچھ سے پیدا شدہ صورتحال کو ڈیل کیا ہے۔ اس نے نہ صرف عمران کی شخصیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا بلکہ حکومت کی خراب طرز حکمرانی کو بھی بے نقاب کیا۔ نہ صرف وزیراعظم نے انتہائی تکبر اور ضد کا مظاہرہ کیا بلکہ شہداء مچھ کے لواحقین کو بلیک میلر کہنے پر ملک بھر میں شدید ردعمل ھوا۔ اور الٹا عمران خان نے معافی مانگنے کی بجائے اس کی تاویلات دینے شروع کی ۔   

عمران خان اپنی فرعونی طبعیت اور تکبر کی وجہ سے سفارتی محاذ پر بھی بری طرح ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ پاکستان کی نان نیٹو اتحادی حیثیت ختم کرنے کیلئے امریکی کانگرس میں بل کا پیش ہونا ایک نیا سفارتی دھچکا ہے ۔ بل کی منظوری سے پاکستان کو ملنے والی امریکی اقتصادی اور فوجی امداد متاثرہونے کا خدشہ ہے ۔ اسٹبلشمنٹ کی سابق وزیراعظم میاں محمد نوازشریف سے نفرت اور الرجی سے قطع نظر نئی بدلتی عالمی اور علاقائی صورتحال میں عمران خان کی نسبت وہ بیرون ملک بھی زیادہ موثر اور قابل قبول ہے ۔ سعودی اور قطری حکومتوں کی جانب سے سابق وزیراعظم نواز شریف کو دورے کی دعوتیں ، چینی حکام میں ان کیلئے پسندیدگی اور انڈیا میں خیرسگالی کے جذبات بھی اسٹبلشمنٹ کو سوچنے پر مجبور کررہی ہے ۔

چاہے حکومت لاکھ کہے کہ پی ڈی ایم کی تحریک سے حکومت کو کوئی خطرہ نہیں یا حکومت خوفزدہ  یا پریشان نہیں ۔ یہ درست بھی ہو سکتا ہے مگر پی ڈی ایم کے ظہور اور اس کی احتجاجی تحریک اور حکومت کی سردمہری سے سنجیدہ حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ اس سلسلے میں دو اہم باتوں کا ذکر بیجا نہ ہو گاکہ وہ حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ لے کر نہ چلنے پر سنجیدہ حلقوں کی تنقید کا سامنا ہے اور دوسرا اس پر محاذ آرائی ختم کرنے کیلئے ڈائیلاگ شروع کرنے کیلئے دباؤ بڑھ رہا ہے۔

عمران خان جیسے ضدی ، متکبر اور شدید نرگیسیت کی حامل شخصیات کچھ بھی کرسکتے ہیں ۔ پی ڈی ایم کی عوامی مقبولیت اور اس کو چیلنج کرنے کی وجہ سے زیادہ امکان یہ ہے کہ وہ غیر جمہوری اور فسطائی ہتھکنڈوں کے استعمال کی طرف مائل ہوجائیں گے اور اختلاف رائے دبانے اور مخالفین کو دبانے کیلئے  سخت اقدامات کرینگے ۔ وہ پہلے ہی اپنے کئی مخالفین کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا چکے ہیں ۔ مسلم لیگی راھنما رانا ثناء اللہ کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ ایسے ان کو منشیات کی اسمگلنگ کے ایک جھوٹے کیس میں پھنسانے کی کوشش کی گئی۔ 

Comments are closed.