کاونٹر انسرجنسی کے لئے دہشتگردوں کا استعمال

ریاست بلوچ عوام کی بغاوت کا مقابلہ کرنے کے لیے دہشت گردوں کا نیٹ ورک استعمال کرتی ہے


تحریر: اعجاز ملک

بلوچستان میں حالیہ شورش اور مزاحمتی تحریک کے خلاف ریاست نے مختلف حربے اور سازشیں ترتیب دیکر مزاحمتی تحریک کی ابھار اور پذیرائی کو روکنے کے لئے جبری گمشدگیوں کا آغاز کیا، قوم پرست سیاسی کارکنوں، طالب علموں، دانشوروں، شعرا، پروفیسرز، وکلاء اور ادیبوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا گیا۔

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں ریاست نے خفیہ آپریشنز کا آغاز کرکے ان آپریشنز میں ریاستی حمایت یافتہ جرائم پیشہ گروہوں کو استعمال کیا، فوج و دیگر فورسز کو بیک فٹ پر رکھ کر فرنٹ لائن پر پروکسیز لا کر کھڑے کئے گئے ان میں عالمی دہشت گرد شفیق مینگل کا نام بھی شامل ہے، شفیق مینگل سابق وفاقی وزیر نصیر مینگل کے بیٹے ہیں، وہ مذہبی تعلیم حاصل کرنے کے علاوہ شدت پسند ذہنیت رکھتے ہیں وہ باقاعدہ جہادی ٹریننگ بھی حاصل کرچکے ہیں،۔

حالیہ بلوچ مزاحمتی تحریک کے آغاز سے قبل شفیق مینگل کراچی میں مقیم تھے وہ اور انکے بڑے بھائی عطاء الرحمن مینگل کراچی میں کار لفٹنگ، اسٹریٹ کرائم اور اغواء برائے تاوان میں ملوث رہے ہیں، کراچی کو اس وقت چھوڑنے پر مجبور ہوئے جب ان کا ایم کیو ایم کیساتھ تنازعہ ہوا۔ یہ دونوں بھائی شفیق الرحمان مینگل اور عطاء الرحمن مینگل اپنے آبائی گاؤں باڈڑی وڈھ منتقل ہوئے، یہاں بھی انہوں نے قومی شاہراہ پر گاڈیوں کو لوٹنے اور کوچ مالکان سے بھتہ وصولی کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کا سیاست میں کوئی حصہ داری نہیں تھا یہ جرائم پیشہ گروہ بناکر چوری،ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان کی وارداتیں کرتے تھے۔

جب بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا اور ریاست کی رٹ مکمل طور پر ختم ہونے لگی تو ریاست نے بلوچ مزاحمتی تحریک کو کچلنے کے لئے ایسے جرائم پیشہ افراد کو بھرتی کرنے اور امن فورس بنانے کا آغاز کیا اس دور میں شفیق مینگل، سراج رئیسانی، کوہی خان مینگل، سرفراز بگٹی جیسے جرائم پیشہ افراد کو سامنے لایا گیا ان کو خفیہ فنڈز جاری کئے گئے، اسلحہ اور گاڑیاں و دیگر سہولیات مہیا کی گئی، دیکھتے ہی دیکھتے بلوچستان کے شہروں و دیہاتوں میں ایسے درجنوں مسلح جھتے نمودار ہوتے رہے، وہ چوری، ڈکیتی اور اغواء برائے تاوان سے آگے بڑھ کر سیاسی کارکنوں کو اٹھانے اور لاپتہ کرنے کا آغاز کیا، مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا کاروبار شروع ہوا اس تمام دھندے میں یہی جرائم پیشہ لوگ پیش پیش تھے۔

مکران، جھالاوان، ساراوان، ڈیرہ بگٹی و کوہلو میں ایسے جرائم پیشہ افراد کی ریاست نے خدمات حاصل کئے اور یہ قتل و غارت کا سلسلہ صرف بلوچ قوم پرستوں تک محدود نہ رہی بلکہ ریاست نے اپنے ان ڈیتھ اسکواڈز سے اقلیتوں بلوچستان میں خصوصا ہزارہ، شیعہ مسلک کے نسل کشی و قتل عام کے لئے بھر پور کام لیا ایک طرف بلوچ کارکنوں کو اٹھانے، اغواء  کرنے اور مسخ شدہ لاشیں پھینکنے کا سلسلہ جاری رہا تو دوسری جانب ان مظالم، بربریت اور قتل عام سے دنیا کی نظریں ہٹانے کے لئے شیعہ قتل عام کا سلسلہ شروع کیا گیا اور دنیا کو یہ دکھانے کی کوشش کی گئی کہ بلوچستان میں قومی آزادی کی کوئی تحریک اور مزاحمت وجود نہیں رکھتی بلکہ لوگوں کو مذہبی عقیدہ رکھنے کی بنیاد پر قتل کیا جارہا ہے ۔

یہ سب کچھ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی ایک مکمل پلان کے طور پر کررہے تھے تاکہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی جو سنگین پامالیاں ہورہی ہیں ان پر پردہ ڈالا جاسکے۔ شفیق مینگل کو خوف کی علامت بناکر سامنے لایا گیا اور ان کے قتل و غارت کا دائرہ اور وسیع ہوتا رہا 2015 میں کراچی صفورہ گوٹھ کے علاقے میں اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے افراد کو نشانہ بنایا گیا جس میں سوار 40 افراد کو بیدردی سے قتل کیا گیا جن میں خواتین بھی شامل تھے ۔اس حملے کی تفتیش کاروں نے جے آئی ٹی رپورٹس میں انکشافات کئے ہیں وہ انتہائی خوفناک ہیں۔

رپورٹ کے مطابق نہ صرف صفورہ گوٹھ واقعہ سمیت مزارات پر حملوں میں ملوث افراد کا تعلق شفیق مینگل سے ہے اور گرفتار ملزمان نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ ٹریننگ باڈڑی میں حاصل کرتے تھے اور ان حملوں کے لئے انہیں اسلحہ و بارود بھی وڈھ باڈڑی سے فراہم کیا گیا۔ صفورہ گوٹھ حملے کے علاوہ ممتاز انسانی حقوق کی کارکن سبین محمود کا قتل، کوئٹہ پولیس ٹریننگ سینٹر، سول اسپتال میں وکلاء کا قتل عام، شاہ نورانی خود کش حملوں، ہزارہ برادری پر حملوں کی تانے بانے بھی شفیق مینگل سے ملتے ہیں۔

سال2014 میں ضلع خضدار کے علاقہ توتک میں شفیق مینگل کے کمپاونڈ سے اجتماعی قبریں برآمد ہوئی تھیں، میڈیا نے 169 لاشیں برآمدگی کا دعوئٰ کیا تھا عدالتی انکوئری کمیشن نے ان اجتماعی قبروں میں بھی شفیق مینگل کو ذمہ دار قرار دیا تھا۔ 2014 میں وڈھ لیویز تھانے میں ایک ایف آئی آر لیویز اہلکاروں کے مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں رپورٹ کنندہ نے کہا ہے کہ شفیق مینگل نے مسلح افراد کے ہمراہ لیویز چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ڈیوٹی پر معمور ہمارے 8 ساتھیوں کو فائرنگ کرکے قتل کیا ہے۔

خضدار و گرد ونواح میں موت کا بدترین کھیل کھیلا گیا، شفیق مینگل نے درندگی کا بدترین مظاہرہ کرتے ہوئے پروفیسر رزاق زہری، ڈاکٹر داود عزیز، عبدالسلام ایڈوکیٹ، ان کی کمسن بیٹی عاصمہ سلام سمیت درجنوں افراد کو موت کی گھاٹ اتارا،  ان تمام شواہد کے باوجود شفیق مینگل کو گرفتار کرنے اور قانوں کی گرفت میں لانے کی بجائے ریاستی ادارے بھر پور تحفظ فراہم کررہے ہیں، کوئٹہ، کراچی و اسلام آباد میں سرکاری پروٹوکول فراہم کیا جاتا ہے۔ جبکہ بلوچستان حکومت اور وزیراعلی جام کمال شفیق مینگل کو بھر پور مالی معاونت اور فنڈز فراہم کررہے ہیں، اربوں روپے ترقیاتی فنڈز کے نام پر دہشت گردی کے لئے صوبائی بجٹ سے فراہم کیا جارہا ہے۔

لشکر جھنگوی اور داعش سے بھی شفیق مینگل کے تعلقات قائم ہیں، رمضان مینگل جو ہزارہ کلنگ میں براہ راست ملوث ہے ان سے بھی شفیق مینگل کے انتہائی قریبی تعلقات ہیں، بعض اطلاعات کے مطابق ان دہشت گرد تنظیموں کی ٹریننگ کیمپس شفیق مینگل کے سربراہی میں سرگرم عمل ہے۔ باوثوق ذرائع اس بات کا خدشہ کا اظہار کررہے ہیں کہ آئی ایس آئی اور جام کمال، شفیق مینگل کو مارچ 2021 میں ہونے والے سینٹ انتخابات میں سینیٹر منتخب کرنے کے لئے راہ ہموار کررہے ہیں۔

اب ریاستی ادارے شفیق مینگل کو ایک بدنام زمانہ دہشت گرد سے ایک محب الوطن سینیٹر بنانے کی کوشش کررہے ہیں تاکہ ان کے دامن پر لگے الزامات کو اس طرح چھپایا جاسکے لیکن عوام کا نعرہ یہ جو دہشت گردی ہے اسکے پیچھے وردی ہےمقبولیت حاصل کرتی جارہی ہے۔

https://thebalochistanpost.net/2017/09/states-deadly-weapon-shafiq-mengal-balochistan-post-report/

https://www.dawn.com/news/1094180

Comments are closed.