قیام پاکستان کا نظریاتی جواز

لیاقت علی

پاکستان کیوں اور کیسے بناکی بحث قیام پاکستان یا تقسیم ہند کے فوری بعد شروع ہوگئی تھی اور گذشتہ 72سالوں سے بلا توقف جاری و ساری ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ مزید 72 سال اسی طرح جاری رہے گی۔

ڈاکٹر عاشق بٹالوی (ہماری قومی جدوجہد) اور عائشہ جلال (واحد ترجمان) جیسے مورخین کا موقف ہے کہ پاکستان کا قیام کانگریس کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ تھا۔ان کے نزدیک کانگریس اگر جناح کو سیاسی طور پر اکاموڈیٹ کردیتی تو وہ کبھی بھی علیحدہ ملک کے قیام کا مطالبہ نہ کرتے۔ ان کے مطابق کانگریس قیادت نے ہر مرحلے پر جناح کو نہ صرف نظر انداز کیا بلکہ اکثر صورتوں میں انھیں سیاسی طور پر تنہا کرنے اور سیاسی طور پر نیچادکھانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

یہ اوران جیسے دیگر مورخین کا موقف ہے کہ جناح نے کانگریس کے ہاتھوں شکست قبول کرنے کی بجائے اس کا سیاسی میدان میں مقابلہ کرنے کا فیصلہ کیا اور مطالبہ پاکستان پیش کرکے کانگریس کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کردیا تھا۔جناح کے لئے مطالبہ پاکستان کانگریس کے خلاف سیاسی لڑائی کا ہتھیار تھا نہ کوئی نظریاتی مقصد جس سے وہ انحراف نہیں کرسکتے تھے۔یہی وجہ ہے کہ انھوں نے کیبنٹ مشن پلان منظور کرلیا تھاجو متحدہ ہندوستان کی ضمانت فراہم کرتا تھایہ تو ان کے نزدیک کانگریس تھی جس نے پہلے اس منصوبے کو منظور کیا اور بعد ازاں اس سے مکر گئی تھی۔ دراصل جناح علیحدگی نہیں چاہتے تھے بلکہ یہ تو کانگریس تھی جس نے اپنی پالیسیوں کی بدولت علیحدگی ان پر تھوپ دی تھی(جسونت سنگھ)۔

کچھ لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ کانگریس کی ہٹ دھرمی تو محض بہانہ تھی دراصل جناح انتہا درجے کے انانیت پسند تھے اور مطالبہ پاکستان انھوں نے گاندھی اور نہرو کو جنھیں وہ سیاست میں اپنا جونیئر خیال کرتے تھے،شکست دینے کے لئے کیا تھا۔جناح کے نزدیک جس چیز کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل تھی وہ ان کی اپنی شخصیت تھی اور جہاں تک مسلمان عوام اور پاکستان کا تعلق تھا یہ تو ان کے ہتھیار تھے جن کے ساتھ وہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف صف آرا ہوتے تھے۔پاکستان ان کی اپنی شخصیت کی تکمیل کا ذریعہ تھا نہ کسی نظریاتی مقصد کا حصول ان کے پیش نظر تھا۔

ایک اور نقطہ نظر جسے گذشتہ چند سالوں میں بہت زیادہ پذیرائی ملی وہ تقسیم ہند کے پس پشت کارفرماانگلستان کے جیو پولیٹیکل مفادات تھے۔ہندوستان تقسیم ہو یا متحد رہے برطانیہ کو اس سے زیادہ غرض اس بات سے تھی کہ انگلستان کے طویل المدتی فوجی، سیاسی اور معاشی مفادات کو تحفظ کس طرح مل سکتا تھا۔اس نقطہ نظر کے ترجمان نریندر سنگھ سریلہ ہیں۔ وہ اپنی کتاب’ہندوستان کی تقسیم کی ان کہی کہانی، گریٹ گیم کے زیرسایہ“ میں لکھتے ہیں کہ ’پاکستان کا قیام انگلستان کے سیاسی اور جغرافیائی مفادات کے لئے ضروری تھا‘۔اس نقطہ نظر کے حامی لارڈ ویول کو بھی ’بانی‘ پاکستان قرار دیتے ہیں۔ویول کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پہلے برطانوی انڈین آرمی کے سربراہ تھے جو ہندوستان کے وائسرائے مقرر ہوئے تھے۔ ان کے نزدیک سب سے سپریم اہمیت انگلستان کے فوجی اور جغرافیائی مفادات تھے۔

قیام پاکستان کی ناگزیریت کا ایک جوازبائیں بازو کی طرف سے بھی آیا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے نظریہ داں ڈاکٹر ادھیکاری نے قوموں کے حق خود ارادیت کے نام پر مطالبہ پاکستان کی حمایت و تائید کی تھی اور مسلمانوں کو ایک قوم کے طور پر تسلیم کیا تھا۔قیام پاکستان کے بعد بھی مارکسسٹ دانشور قیام پاکستان کے معاشی جواز تلاش کرنے میں سرگرداں رہے۔

حمزہ علوی نے اسے یوپی اور بہار کے تنخواہ دار طبقے کی خواہشات اور امنگوں کو مطالبہ پاکستان کا محرک قرار دیا تھا۔بائیں بازو کے کچھ دانشوروں نے قیام پاکستان کا تہذیبی جواز جواز بھی ڈھونڈنے میں ہاتھ پاؤں مارے تھے۔ میجر اسحاق محمد نے پنجاب کا المیہ نامی کتابچے میں پنجاب کو تہذیبی طور پر ہند سے علیحدہ سندھ(انڈس سویلائیزیشن) کا حصہ قرار دے کر پاکستان کانظریاتی جواز پیش کیا تھا۔ میجر اسحاق کے ہند اور سندھ کی تہذیبی علیحدگی کو دو قومی نظریہ کا جواز بنانے کی اس دلیل کو اعتزاز احسن نے انڈ س ساگا میں بیان کیا تھا۔میجر اسحاق محمد ہوں یا اعتزازاحسن وادی سندھ میں قیام پاکستان کا جواز تلاش کرنا دو قومی نظریہ کی سیکولر معذرت خواہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔

جناح نے پاکستان کو درپیش نظریاتی الجھن کا حل اپنی ۱۱۔اگست1947 کی تقریر میں پیش کیا تھا جس میں انھوں نے ریاست کے تمام شہریوں کو بلا لحاظ مذہب مساوی آئینی اور قانونی حقوق کا حقدار قراردیا تھا اور ریاست اور مذہب کو علیحدہ کرنے کی وکالت کی تھی لیکن ان سے یہ کسی نہیں پوچھا تھا کہ اگر ہندو نے ہندو اور مسلمان نے مسلمان نہیں رہنا تھا تو پھر پاکستان کے قیام کا کیا جواز تھا۔اور اگر ریاست کو اپنے شہریوں کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں رکھنا تو پھر مذہب کی بنیاد پر مسلمان ایک قوم کیسے ہوئے لیکن وہ ٹھہرے قائداعظم ان سے کون سوال پوچھ سکتا تھا۔

قیام پاکستان کے فوری بعد ایک انگریز صحافی آئن سمتھ جو انگریزی اخبار سٹیٹس مین” تھے ایک کتاب “ نیو کنٹری اولڈ سویلائزیشن” کے نام سے لکھی تھی۔انھوں نے اپنی اس کتاب میں تھیسس پیش کیا تھا کہ پاکستان اگرچہ ایک نیا ملک ہے لیکن جن علاقوں پر یہ مشتمل ہے وہ صدیوں پرانی تہذیب و تمدن کے وارث ہیں۔یہ کتاب چھپنے کی دیر تھی کہ وہ تمام دانشور جو پاکستان کی نظریاتی اساس مذہب کو تسلیم کرنے سے ہچکچاتے تھے یہ ثابت کرنے پر کمر بستہ ہوگئے کہ پاکستان بالخصوص مغربی پاکستان توان علاقوں پر مشتمل ہے جو ہمیشہ ہند سے علیحدہ رہے ہیں اور یہ علاقے بد ھ مت کا گہوارہ رہے ہیں جو برہمن ازم کا مخالف تھا۔

ان کے مطابق ان علاقوں میں اسلام کے پھیلاؤ کے پس پشت بھی یہاں بدھ مت کے اثرات کی موجودگی تھی۔ان کے نزدیک بدھ مت بت پرستی کا مخالف اور اسلام بھی بت پرستی سے انکار کرتا ہے اسی لئے ان علاقوں میں اسلام قبول عامہ کا درجہ پاگیا۔اسلام کے پھیلاؤ کی یہ انتہائی سادہ توضیح تھی۔حقیقت یہ ہے کہ شمالی ہند میں اسلام تبلیغ سے زیادہ حملہ آوروں کی بدولت پھیلا تھا۔ہندووں کی تجارتی برادریوں نے اسلام قبول نہیں کیا تھااور جہاں ہندو وں اور دوسرے غیر مسلموں نے اسلام قبول کیا وہ انفرادی طور پر نہیں بلکہ بحیثیت قبیلہ اور کمیونٹی کے طور پر کیا تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پنجاب میں بہت کم بنیئے اور کھتری مسلمان ہوئے۔

ان دانشوروں کے نزدیک پاکستان اور بھارت(جو ان کے نزدیک برہمن ازم کا علم بردار ہے) کے مابین پائے جانے والے اختلافات اور تضادات قدرتی اور حقیقی ہیں اور ان کی جڑیں صدیوں پر محیط سندھ اور ہند کی علیحدگی میں پیوست ہیں۔ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ انڈس سویلایزیشن کی سرحدیں واہگہ پر ختم ہوجاتی ہیں یہ کہیں آگے بھی جاتی ہیں؟

انڈس سویلایزیشن کو پاکستان کی وجہ جواز جتانے والے دانشوروں کے نزدیک مسلم عوام اور ہندووں کے مابین تضادات ناقابل حل ہیں۔اس نقطہ نظر کی بہترین مثال زاہد چودھری اور حسن جعفرزیدی کی لکھی کتابیں پاکستان کیسے بنا ہیں۔وہ پاکستان کو ابھرتی ہوئی مسلمان سرمایہ داری کی تحریک سمجھتے ہیں اور کانگریس کو اجارہ دار سرمایہ کا نمائندہ قرار دیتے ہیں۔دوقومی نظریہ کے یہ معذرت خواہ دانشور ان دو ریاستوں کے مابین جاری کشمکش کا تاریخی اور نظریاتی جواز فراہم کرتے ہیں۔ یہ حضرات گاندھی اور نہرو کو مطعون کرتے اور انھیں ہندو سرمایہ داری کا نمائندہ بتاتے ہیں جب کہ جناح ان کے نزدیک مسلم عوام کی امیدوں اور امنگوں کا ترجمان قرار پاتا ہے۔یہ دانشور مذہب کے نام پر تو قیام پاکستان کو مسترد کرتے ہیں لیکن ہند سندھ کی فکری،تہذیبی اور جغرافیائی دوئی کی آڑ میں دو قومی نظریئے کو سیکولر جواز فراہم کرتے ہیں۔

دوقومی نظریہ کو سیکولر جواز فراہم کرنے کے لئے متعدد سیکولر اور ترقی پسند دانشوروں نے کتابیں لکھی ہیں۔ عبداللہ ملک مرحوم نے مشرقی بنگال کو مغربی بنگال سے علیحدہ سیاسی اور تہذیبی اکائی ثابت کرنے کے لئے ’بنگالی مسلمانوں کی صد سالہ جدوجہد آزادی‘کے عنوان سے کتاب لکھی تھی جس میں انھوں نے بنگالی مسلمان کسانوں کی بغاوتوں کو مسلمانوں کے لئے علیحدہ وطن کی تحریک کا پیش خیمہ قرار دیا تھا۔ان کی یہ کتاب مجلس ترقی ادب نے سرکاری فنڈز سے شایع کی تھی۔رشید اختر ندوی نے ’مغربی پاکستان کی تاریخ‘ لکھی تھی جسے سرکاری امداد سے چلنے والے ادارے نے شایع کیا تھا۔ندوی نے مغربی پاکستان میں شامل علاقوں کو آریاوں کے عہد سے ہند سے علیحدہ خطہ ثابت کیا تھا۔ ان کی یہ کتاب ون یونٹ کو نظریاتی جواز فراہم کرنے کی کوشش تھی۔

ابن حنیف ایک ایسے مصنف تھے جنھوں نے آثار قدیمہ، اساطیر اور علم بشریات کے حوالے سے جو لڑیچر لکھا ہے اس کی پاکستان میں کوئی دوسری مثال موجود نہیں ہے۔انھوں نے بھی اپنی کتاب’سات دریاوں کی سرزمین‘ میں سندھ کو ہند سے علیحدہ ثابت کیا ہے۔اسی طرح ڈاکٹر مبشر حسن نے بھی اپنی کتاب ’شاہراہ انقلاب‘ میں ہندو مسلم تضاد کے تناظر میں بھارت کو قدرتی حلیف ثابت کیا ہے اور قیام پاکستان کو تاریخی ’ناگزیریت‘کو ثابت کیا ہے۔

گذشتہ سات دہائیوں میں بہت سے دانشوروں اور مورخین نے اپنے اپنے طور پر پاکستان کو نظریاتی جواز فرہم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ کوئی اسے کانگریس کی ہٹ دھرمی کا نتیجہ قرار دیتا ہے تو کوئی اسے سامراج کے مفادات کے تحفظ کی چیک پوسٹ کا نام دیتا ہے۔کچھ کے نزدیک یہ انڈس سویلائزیشن کی انفرادیت کا نمونہ ہے جو ہند سے مختلف و منفرد ہے۔ لیکن قیام پاکستان کے حوالے سے یہ سب نظرئیے علم الکلام کی ذیل میں آتے ہیں۔ یعنی پہلے اپنا تھیسس متعین کرلیا اور پھر واقعات اور حادثات کو اس انداز میں ترتیب دیتے ہیں کہ ان کا تھیسس درست ثابت ہوجائے۔ پاکستان کا کوئی نظریاتی جواز چونکہ کوئی تھا ہی نہیں اس لئے سیکولر ہوں یا مذہبی دانشور اور مورخ سب اندھیرے میں تیر چلاتے ہیں۔

Comments are closed.