پاکستان میں روسی ویکیسن خریدنے کی دوڑ

پاکستان میں اختتام ہفتہ پر کووڈ19 سے بچاؤ کی تجارتی فروخت کے سلسلے کا پہلا مرحلہ شروع ہوتے ہی جنوبی شہر کراچی میں جوان شہریوں کی ایک بڑی تعداد اس کے حصول کے لیے لمبی قطاروں میں کھڑی نظر آئی۔

پاکستان میں گزشتہ اختتام ہفتہ پر کووڈ 19 سے بچاؤ کی ویکیسن کی کمرشل فروخت کا پہلا مرحلہ شروع ہوتے ہے کراچی میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان شہریوں نے ویکسین کے حصول کی کوشش کی تاہم اتوار کو ہی انہیں اس ساری ویکسین کے فروخت ہو جانے کی خبر سنا دی گئی۔

پاکستان میں فی الحال صحت کے شعبے میں کام کرنے والے فرنٹ لائن ورکرز اور 50 سال سے زائد عمر کے شہریوں کو مفت ویکسین لگائی جا رہی ہے تاہم یہ مہم طلب کے مقابلے میں کہیں زیادہ سست روی کا شکار ہے۔ گزشتہ ماہ حکومت نے نجی شعبے کو پبلک کے لیے ویکسین کی کمرشل درآمد کی اجازت دے دی تھی جس کے بعد روسی ویکسین اسپُٹنِکدرآمد کی گئی، جس کی دو خوراکیں 12 ہزار پاکستانی روپے میں فروخت ہونا شروع ہو گئیں۔

اسی 80 امریکی ڈالر یا 12 ہزار پاکستانی روپے ایک عام شہری کے لیے کم قیمت نہیں ہے، تب بھی روسی ویکسین اسپُٹِنککی فروخت کا سلسلہ شروع ہوتے ہے عوام کی بڑی تعداد اس کی خریداری کے لیے لمبی لمبی قطاروں میں اپنی باری کا انتظار کرتے دکھائی دی۔ جنوبی بندرگاہی شہر کراچی میں اسپُٹِنک ویکسین خریدنے کے لیے لوگوں کو تین تین گھنٹے لائن میں لگنا پڑا۔ کووڈ19کے خلاف اس ویکسین کی خرید کے خواہش مند شہریوں میں زیادہ تعداد جوان پاکستانیوں کی تھی، کیونکہ حکومت کی طرف سے کورونا کی مفت ویکسینیشن کے لیے جن افراد کو ترجیحی حق دار قرار دیا گیا ہے، ان میں فی الحال نوجوان شامل نہیں۔

 اتوار کے روز ایک 34 سالہ شخص سعد احمد نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، میں بہت خوش ہوں کہ مجھے یہ ویکسین مل رہی ہے کیونکہ سفر کرنے کے لیے ویکسین اب لازمی قرار دے دی گئی ہے۔‘‘ سعد احمد نے کراچی کے ایک مہنگے نجی ہسپتال سے کورونا کے خلاف یہ ویکسین لگوائی۔

پاکستان میں کورونا کے خلاف ویکسین کی نجی فروخت کا سلسلہ شروع ہوتے ہی حکومت اور ویکسین کے درآمد کنندگان کے مابین صحت کے لیے نہایت اہم اس ٹیکے کی قیمت کا تعین ایک تنازعے کا سبب بن گیا ہے۔ ابتدائی طور پر حکام نے اس امر پر اتفاق کیا تھا کہ وہ ویکسین کی قیمت کے سلسلے میں چھوٹ دیں گے۔ بعد میں تاہم موقف تبدیل کرتے ہوئے حکام نے کہنا شروع کر دیا کہ وہ ویکسین کی زیادہ سے زیادہ قیمت مقرر کرنا چاہتے ہیں۔

دریں اثناء پاکستان کی ایک دوا ساز کمپنی نے، جو روس سے اس کی اسپُٹِنکویکسین کی 50 ہزار خوراکیں درآمد کر چکی ہے، قیمت کے معاملے میں حکومت کو عدالت میں گھسیٹ لیا اور وہاں اُس کے حق میں یہ فیصلہ دے دیا گیا کہ جب تک ویکسین کی قیمت کے تعین کا حتمی فیصلہ نہیں ہو جاتا، تب تک یہ کمپنی اسپُٹِنک ویکسین بیچ سکتی ہے۔

کراچی کے ایک ہسپتال میں ویکسینیشن مہم سے متعلق ڈاکٹر احمد نے روئٹرز سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، جیسے ہی ویکسینیشن مہم شروع ہوئی، لوگوں کی لمبی قطار لگنے لگیں۔ ‘‘ سوشل میڈیا پر اتوار کی رات ویکسین لگوانے کے خواہش مند افراد کی لمبی قطاروں کی تصویریں شیئر کی گئیں۔ کراچی کے جنوب میں واقع ایک ہسپتال کے اہلکار نے اپنا نام مخفی رکھتے ہوئے بتایا کہ اس ہسپتال کو اسپُٹِنک ویکسین کی پانچ ہزار خوراکیں ملتے ہی دو روز کے اندر اندر تمام کی تمام خوراکیں پیشگی طور پر بک ہو چکی تھیں۔

پاکستان میں نجی کمپنیوں کو ویکسین کی فروخت کی اجازت ایک ایسے وقت پر دی گئی ہے، جب ملک کورونا وائرس کی وبا کی تیسری لہر سے دو چار ہے اور پاکستان میں یومیہ کورونا وائرس کے نئے کیسز کی تعداد اور اس سے لگنے والی بیماری کووڈ انیس کا شکار ہو کر مرنے والوں کی تعداد میں واضح اضافہ ریکارڈ کیا جا رہا ہے۔ پاکستان کی چند کمپنیوں اور ملک کے سب سے بڑے بینک نے بڑی مقدار میں کورونا ویکسین کی خوراکیں خریدیں، تاکہ اپنے اپنے عملے کے ارکان کو طبی تحفظ فراہم کر سکیں۔

پاکستان میں کورونا کی وبا کی تیسری لہر کے سبب عوامی سطح پر زندگی کافی حد تک متاثر ہو رہی ہے اور لوگوں میں کووڈ انیس کی بیماری کا خوف بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر کے ایک تازہ ترین ٹوئٹر پیغام کے مطابق اس وقت ہسپتالوں کے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں مریضوں کی تعداد تین ہزار پانچ سو اڑسٹھ ہو چکی ہے جو کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے آغاز سے لے کر اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں اب تک کورونا کے کل رجسٹرڈ کیسز کی تعداد بھی اب 687,908  جبکہ کووڈ انیس کے سبب اموات کی تعداد 14,778 ہو چکی ہے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.