ہماری عید سعید

خالد محمود

دنیا میں بہت سے ممالک پائے جاتے ہیں اور ان میں سے سب سے بڑا عجوبہ ہمارا اپنا وطن ہے۔یہاں ہماری فصل سورج کے گرد زمین کی گردش (یعنی سولر کیلنڈر)کے ساتھ پکتی ہے۔ہمارے میلے ٹھیلے اور عرس بھی دیسی کیلنڈر کے حساب سے منائے جاتے ہیں۔ ہماری تنخواہیں اور ٹیکس کی کٹوتیاں بھی شمسی تقویم پر چلتی ہیں۔ہمارے ہاں سیاسی مدّو جذر،اُتھل پُتھل اور جنونی تحریکیں (جن کے پیچھے اپنی دانست میں کئی معصوم لوگوں کے خفیہ ہاتھ ہوتے ہیں) بھی شمسی کیلنڈر پر استوار کئے جاتے ہیں۔

آپ نے کبھی نہیں سنا ہو گا کہ فلاں فلاں مارشل لاء اسلامی مہینے کی فلاں تاریخ کو لگا تھا۔ہاں اس میں ایک استثناء قیام پاکستان کو حاصل ہے جو کہ 15 اگست کو بھارت کی تقسیم کے ساتھ بیک وقت 15 اگست کو ہی آزاد ہوا تھا۔ مگر ہماری مذہبی عجلت فروشی میں اسے بھی 14 اگست یعنی چھبیس رمضان میں برپا کر دیا اور یُوں ہم ہر سال وقوعے سے ٹھیک ایک دن پہلے آزادی کے بگل اور بھونپو بجانا شروع کردیتے ہیں۔

شوکت عزیز نے وزیر اعظم پاکستان بنتے ہی، خدا معلوم کیوں،شاید گلوریا کاہن عزیز (ان کی یہودی بیوی جن کے قبول اسلام کی اخبارات میں خبر بھی لگوائی گئی تھی)کے کہنے میں آ کر،پاکستان کے بے ڈول گھنٹے“ کی نیم خوابی کو بیدار کرنے کی ٹھان لی۔ انہوں نے بالائی کرّہ شمالی کے ممالک کی طرح ڈے لائیٹ سیونگ کی خاطر خزاں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ پیچھے کروا دیں ۔میرے ایک پختون دوست سخت ناراض ہو گئے تھے۔وقت تو اللہ کا ہے یہ وزیر اعظم کون ہوتا ہے اس میں چھیڑ چھاڑ کرنے والا؟ ایک منچلے بیوروکریٹ کی طنّاز اور چُلبُلی بیگم نے ایک چٹکلہ گھڑ لیا تھا کہ راجدھانی کے اعلی ٰ افسران کو کوئی کام وام ہے نہیں اس لئے وہ ا ٓج کل ایک گھنٹہ پیچھے مصروفِ کار رہتے ہیں اور ایک گھنٹہ آگے۔ دوسری بیگم بولی خدارا اتنا بڑا الزام مت لگاؤ۔وہ اس قابل کبھی تھے ہی نہیں۔پہلی نے کہا میں نے گھڑی کی سوئیوں کو آگے پیچھے کرنے کی بات کی ہے۔

دنیا میں صرف دو ہی مذاہب ایسے ہیں جن کے مذہبی تہوار قمری تقویم پر چلتے ہیں؛ ایک یہودی اور دوسرے مسلمان۔مگر یہودیوں نے تو اپنے تمام تہوار شمسی تقویم میں ایڈجسٹ کر رکھے ہیں۔لہذا اب آپ کو یہودی تہوار۔ہانوکا،پورم،پاس اوور اور شاہ وُوت شمسی تقویم پر فکس ملیں گے۔ انہوں نے اپنا قمری کیلنڈر چھوڑ دیا ہے۔ اب ربیع الاول کا سیدھا مطلب ہے پہلی بہار جو کبھی پوس میں آ جاتی ہے اور کبھی برسات میں۔مگر ہمارے دیسی کیلنڈر کے حساب سے موسم بَہار چیت سے پہلے نہیں آتا ۔مگر ہم پاکستانی ہر عید پر کوئی نا کوئی نیا چاند چڑھا لیتے ہیں۔اس میں،”چن چن دے سامنے آ گیا“ والے گیت کا کوئی ہاتھ نہیں۔جرنل عیوب کے دور میں لوگ سحری کھا رہے تھے کہ یکا یک مساجد سے اعلان ہوا کہ حضرات روزہ نہ رکھیں صبح عید ہے۔برسرِ اقتدار کا یہ وہم ہے کہ جمعے کے دو خطبے حاکم وقت کی پشت پر بھاری پڑتے ہیں حالانکہ 12 اکتوبر 1999 کو منگل تھا جسے باآسانی جنگل میں منا لیا گیا تھا۔

حسن اتفاق یہ ہے کہ فوجی جنتا ہمیشہ منگل کو مبارک سمجھتی آئی ہے۔شاید جنگل میں منگل منانے والے محاورے سے اس کا کوئی گہرا سمبندھ ہے۔جبکہ توہم پرست فاشسٹ جمعے کے دو خطبوں سے خائف ہے۔سات اکتوبر اٹھاون اور پانچ جولائی ستتر کو بھی منگل ہی تھا اور منگل ہی منایا گیا تھا۔

ایک دفعہ کا ذکر ہے میں  نیو یارک میں محمود کی دکان پر دودھ لینے گیا تھا وہاں راخیل کھڑی سگریٹ کے کش لگا رہی تھی۔محمود نے مجھے اسلام و علیکم کہا تو کاؤنٹر پر کھڑی راخیل(انگریزی میں ریچل) نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھایا اور مجھے اسلام و علیکم کہا۔ میں اُن دونوں مطالعہ پاکستان اور دو قومی نظریے کے بیرونی مدار پر تھا۔میں نے اس کے سلام کا جواب تو دیا مگر اس سے ہاتھ نہیں ملایا۔وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی ارے پگلے میں اور تم آپس میں کزنز ہیں،صرف ماں کا فرق ہے تمہاری اُم امجد ہاجرہؒ تھیں اور میری سارہ ؒ۔

مجھے اس پر دھچکا لگا میں نے مدد کے لئے محمود کی طرف دیکھا۔محمود کا تعلق یمن سے تھا وہ کہنے لگا راخیل ٹھیک کہتی ہے۔ہم عرب مسلمان اور یہودی تاریخی لحاظ سے آپس میں کزنز ہی ہیں۔راخیل کہنے لگی اتنے حیران کیوں ہوتمہاری کئی اسلامی مذہبی رسومات ہمارے یہودی مذہب سے ہی مستعار لی گئی ہیں ، یقین نہیں آتا تو کسی بھی اسرائیلی اور عربی کی پتلون اتروا کے دیکھ لو۔ محمود کبھی کبھار راخیل سے اپنی دُکان کے تہہ خانے میں سٹاک لگواتا تھا۔جس کے عوض محمود اُسے پیسے،بئیر اورمیرووانا بھرا سگریٹ پلا دیا کرتا تھا۔اورجب جب راخیل مالی شکستگی کا شکار ہوتی تو وہ اسے تہہ خانے میں لے جا کر تمتع بھی فرما لیا کرتا تھا۔

محمود نے مجھے آنکھ ماری کہ ہم صرف اوپر اوپر سے مسلمان اور یہودی ہیں نیچے تہہ خانے میں ہم ایک ہو جاتے ہیں۔ راخیل نے ایک زور دار قہقہے کے ساتھ محمود کی مکمل تائید کی۔راخیل نے کہا،”نیور مائنڈ وَٹ دا ریبائی انڈ ملّا سیز؛ آل ویز گو وِد دا فلو۔دیٹس آل“۔باخدا میں نے عرب اسرائیل یا عربی اور یہودی کے درمیان اس قدر ہم آہنگی اور ریشہ ختمی پہلے کبھی نہ دیکھی تھی۔

Comments are closed.