انسان کی آزادی کا معاملہ ایک معمہ ہے

شفیق احمد

انسان کی آزادی کا معاملہ ایک معمہ ہے۔ یہ موضوع اپنی نوعیت میں جتنا دلچسپ ہے اپنی ہیت میں اتنا ہی دقیق اور گہرا ہے۔ اگرچہ اہل فکر کہ ہاں اس حوالے سے مختلف نکتہ ہائے نظر پائے جاتے ہیں۔ لیکن وجودی فلسفہ ہمیں خوشگوار نتائج سے ہمکنار کرتا ہے۔ دوستوئیفسکی نے ایک بار لکھا تھا کہ “ اگر خدا موجود نہیں تو سب کچھ جائز ہے“۔لیکن ہمارا مشاہدہ بتاتا ہے کہ خدا کونہ ماننے سے  انسان تنہا رہ جاتا ہے اور اپنے اندر اور باہر کی دنیا میں کوئی ایسی شئے نہیں پاتا جس پر وہ بھروسہ کرسکیں۔ بقول غالب “انکار نہیں، اور مجھے ابرام بہت ہے“۔ 

سوال یہ ہے کہ اگر انسان ہی آزادی ہے اور انسان کو کسی مدد یا سہارے کہ بغیر انسان کی تشکیل کرنا ہے۔ تو کیا اس کا سبب یہ ہوسکتا ہے کہ اس نے خود اپنے آپ کو پیدا نہیں کیا ؟ یا پھر ہیڈیگر کہ الفاظ میں “ ایسی ہستی جو اپنے تصور سے پہلے موجود ہوتی ہے؟ یا بقول سارتر کہ چونکہ“ انسان پہلے سے طے شدہ کوئی امر یا واقعہ نہیں لہذا خالص فعلیت ہے“۔ بہر حال یہ مقدمہ ہمیں فکر پر اکساتا ہے اور ہم سے ایک تنقیدی جائزے کا تقاضا کرتا ہے۔ 

انسان اقدار تخلیق کرتا ہے اور اپنی زندگی کے حدود کا تعین کرتا ہے یوں وہ ارادے اور آزادی کی ذمہ داری کے کرب اور سزا سے بچ جاتا ہے۔ لیکن وجودی دانشور ذمہ داری کہ اس احساس کو ایک آفاقی پہلو سے دیکھتے ہیں جس میں انساں فرد سے بنی نوع انسان بن جاتا ہے۔ یعنی انسان خود اپنا ذمہ دار ہونے کا مطلب ہے وہ صرف اپنی ذات کا ذمہ دار نہیں بلکہ تما م بنی نوع انسان کا ذمہ دار ہے۔ 

فرض کیجیئے میں شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کرتا ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ یہ فیصلہ  میری خواہش، میری صورت حال یا میرے جذبات کا نتیجہ ہو۔ اس کے ذریعے نہ صرف خود کو بلکہ تمام بنی نوع انسان کو پابند کرتا ہوں۔ یوں میں اپنے لیے اور تمام انسانوں کیلئے زمہ دار بن جاتا ہوں۔ میں فرد کی ایسی شبہہ تخلیق کرتا ہوں جس پر میرے نزدیک تمام انسانوں کو پوراترنا چایئے۔ پس میں اپنی تشکیل کرتے ہوئے تمام انسانو ں کی تشکیل کرتا ہوں۔ 

خواہش، ارادے، اور ذمہ داری کے بار گراں کی یہ آزادی وجودی دانشور کہ نزدیک ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کرب  جنم لیتا ہے یا تعین زات کا ساماں ملتا ہے۔  لیکن اتنا ہی کافی نہیں ہمیں اس تصور کہ عملی پہلووں کو دیکھنا ہوگا۔ ہمیں ایک توازن قایئم کرنا ضروری ہے  تاکہ ہم زمین کے با اختیار انسان اور آسمان و زمین کہ با اختیار خدا کہ بیج محیط فاصلے کو یگانگت کا لباس پہنا سکیں۔ 

Comments are closed.