کوئی ہمسایہ ملک امریکا کو فوجی اڈے دینے کی غلطی نہ کرے: طالبان

افغان طالبان نے ہمسایہ ملکوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ امریکا کے افغانستان سے واپسی کے بعد اسے اپنی زمین پر فوجی اڈے بنانے کی اجازت دینے کی تاریخی غلطی‘ نہ کریں۔

افغانستان سے امریکی افواج کی واپسی شروع ہوجانے اور گیارہ ستمبر تک انخلاء مکمل کر لینے کے صدر جو بائیڈن کے اعلان کے بعد ایسی قیاس آرائیاں جاری ہیں کہ امریکا اس خطے میں اپنے مستقبل کے رول کے حوالے سے پڑوسی ممالک اور بالخصوص پاکستان میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنے پر غور کر رہا ہے۔

افغان طالبان نے بدھ کے روز ایک بیان جاری کیا ہے۔ انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا ”ہم ہمسایہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ اپنی سرزمین پر امریکا کو فوجی اڈے قائم کرنے یا فضائی حدود استعمال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ اگر انہو ں نے ایسا کرنے کی اجازت دی تو یہ ایک تاریخی غلطی ہو گی اور رسوائی کا باعث بنے گی۔

طالبان نے متنبہ کیا کہ افغانستان کے عوام اس گھناؤنے اور اشتعال انگیز اقدام پر خاموش نہیں رہیں گے اور تمام تر مشکلات کی ذمے داری ایسی غلطی کرنے والوں پر عائد ہو گی۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ غیر ملکی فوجوں کی خطے میں موجودگی سے یہ علاقہ بد امنی اور انتشار کا شکار ہے۔

طالبان کی جانب سے یہ تنبیہ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ امریکا افغانستان سے انخلا کے بعد اس کے ہمسایہ ممالک میں اپنے فوجی اڈے قائم کرنا چا ہتا ہے۔ اس حوالے سے پاکستان کے علاوہ تاجکستان اور ازبکستان کے نام بھی آتے رہے ہیں۔

امریکی عہدیدارنجی گفتگو میں یہ تسلیم کررہے ہیں کہ افغانستان کے قریبی ممالک مثلاً تاجکستان اور ازبکستان میں ممکنہ فوجی اڈے قائم کرنے کے امکانات پر بات چیت ہو رہی ہے لیکن اب تک کسی بھی ملک کے ساتھ ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا ہے۔

حالیہ دنوں میں پاکستان کے سینئر عہدیداروں اور امریکی حکام بشمول بائیڈن کے قومی سلامتی مشیر جیک سولیوان اور ان کے پاکستانی ہم منصب کے مابین بھی با ت چیت ہوئی ہے۔

پاکستان نے امریکا کو زمینی یا فضائی حدود دینے کے حوالے سے واشنگٹن کے ساتھ کسی نئے معاہدے کی تردید کی ہے۔پاکستانی وزیر خارجہ شا ہ محمود قریشی نے منگل کے روز سینیٹ کو بتایا ”یہ خبر بے بنیاد اور قیاس آرائیوں پر مبنی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا ”میں اس بات کو پارلیمان میں صاف طور پر کہنا چاہتا ہوں کہ وزیراعظم عمران خان کے زیر قیادت پاکستان کبھی بھی امریکا کو اپنی زمین پر اڈے بنانے کی اجازت نہیں دے گا۔

پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی پیر کے روز ایک بیان میں کہا تھاکہ پاکستان میں کوئی امریکی فوج یا ہوائی اڈہ نہیں ہے اور نہ ہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے، اس حوالے سے متعلق کوئی قیاس آرائیاں بے بنیاد اور غیر ذمہ دارانہ ہیں اور ان سے پرہیز کیا جانا چاہیے۔

پاکستان کے وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے سلامتی امورمعید یوسف نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت میں کہا کہ پاکستان کے دفتر خارجہ کی طرف سے اس بارے میں جو بیان جاری کیا گیا ہے وہ حکومت کا حتمی موقف ہے۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس امریکا اور طالبان کے درمیان ایک معاہدے میں یہ طے پایا تھا کہ رواں سال تمام غیر ملکی فوج افغانستان سے نکل جائیں گی۔ اس کے بدلے میں طالبان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ القاعدہ، داعش یا کسی بھی شدت پسند گروہ کو افغانستان کی سرزمین استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

افغان طالبان کا کہنا ہے کہ گزشتہ برس فروری میں دوحہ میں طے پانے والے اس امن معاہدے کی مناسبت سے ان کی یہی خواہش ہو گی کہ ان کے ملک کے خلاف بھی کوئی سرزمین استعمال نہ ہو۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ماہ اعلان کیا تھا کہ افغانستان میں مقیم آخری ڈھائی ہزار امریکی فوجی گیارہ ستمبر تک افغانستان چھوڑ دیں گے۔ لیکن غیر ملکی افواج کے انخلا کے اعلان کے بعد افغانستان کی حکومتی افواج کے لیے تنہا طالبان کا سامنا کرنے کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

حالیہ ہفتوں میں افغانستان میں تشدد میں اضافہ ہوا ہے اور طالبان اور حکومتی افواج کے درمیان روزانہ جھڑپیں جاری ہیں۔ طالبان زیادہ سے زیادہ رقبے پر قبضہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں جبکہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ ختم کرنے کے لیے کیے جانے والے امن مذاکرات بھی تعطل کا شکار ہیں۔

dw.com/urdu

Comments are closed.