پاک سعودی تعلقات میں ایک بار پھر گرمجوشی

واجد علی سید

جب جنرل مشرف، وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت کو فارغ کرکے اقتدار پر قابض ہوئے تو اس وقت کے امریکی صدر بل کلنٹن کو اس بات کا شدید غصہ تھا۔ کلنٹن اس سے پہلے کارگل کا مسئلہ حل کروا چکے تھے اور جنرل مشرف سے سخت ناراض تھے۔ نواز شریف کا تختہ الٹائے جانے کے بعد وائٹ ہاوس ، پاکستانی حکومت سے رابطہ کرنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے باوجود کلنٹن کو تشویش تھی کہ بھٹو کی طرح نواز شریف کو بھی کہیں پھانسی نہ دے دی جائے۔

امریکہ کی جانب سے پاکستانی حکومت سے براہ راست رابطہ کر نے کا یہ مطلب ہو سکتا تھا کہ مشرف بدلے میں کوئی ڈیمانڈ کر دیں یا بات نہ مانیں۔ سو طے یہ پایا گیا کہ کسی ایسے ملک سے کہا جائے جس کی بات کو رد کرنا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے مشکل ہو، قرعہ سعودی عرب کےنام نکلا۔ وائٹ ہاوس کے کہنے پر سعودی عرب نے مشرف کا قائل کیا کہ وہ نواز شریف کو ان کے حوالے کر دیں۔ یوں نواز شریف کی جان بچی جس کے لئے وہ امریکی سفارت کاری کے شکر گزار بھی تھے تو دوسری طرف خود سعودیوں کو بھی مسلم لیگ نواز کی دائیں بازو کی پالیسیاں وارا کھاتی تھیں اور اسے مستقبل کی سرمایہ کاری سمجھا گیا۔

جب نواز شریف نے تیسری مرتبہ حکومت سنبھالی توایسا وقت آ ہی گیا جب توقع کی جانے لگی کہ وہ سعودی عرب کے احسان کا بدلہ چکائیں گے۔ نواز شریف نے بہرحال یمن میں سعودی مداخلت میں سہولت کار بننے کا فیصلہ اپنے طور پر کرنے کے بجائے پارلیمنٹ کے ذریعے کہلوا دیا کہ پاکستانی افواج یمن نہیں جائے گی۔ حالیہ تاریخ میں یہ ایسا موقع تھا جب پاک سعودی تعلقات کھٹائی میں پڑے۔ حالات تب اتنے خراب نہیں تھے جتنے عمران خان حکومت میں ہوئے۔

وزیراعظم عمران خان نے 2019 میں بغیر سوچے سمجھے اعلان کر دیا کہ وہ سعودی ایران تعلقات بہتر کرنے میں ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ محمد بن سلمان اس بات سے اتنا زچ ہوئے کہ خان صاحب کو دیا ہوا اپنا جہاز جو نیویارک سے اڑان بھر چکا تھا کو واپس موڑا گیا۔ عمران خان اور ان کے وفد کو نیویارک میں ہی اتار دیا گیا۔ حالات اس سے بھی زیادہ دگرگوں تب ہوئے جب خان صاحب کی ضد بن گئی کہ وہ ملائیشیا کانفرنس میں ضرور جائیں گے۔ انہیں بہت مشکل سے روکا گیا ۔ بعد میں شاہ محمود قریشی نے عمران خان کے کہنے پر اعلان کیاکہ اوا ٓئی سی کے بجائے ایک نیا فورم بنایا جائے گا جس میں ملا ئشیا اور ترکی شامل ہوں گے۔

یہ ا یسا اعلان تھا کہ جس کے بعد پاکستان کو دی گئی سعودی امداد بھی واپس لے لی گئی اور پاکستان کو چین سے قرضہ لے کر وہ پیسے واپس کرنے پڑے۔ سعودی عرب اور اس کے کراؤن پرنس کی یہ اکڑ فوں اس لئے تھی کہ امریکہ کے کندھوں پر سوار ہو کر وہ خطے کی طاقتور ترین ریاست بنے اور خطے کے مستقبل کا فیصلہ اس کی مرضی سے مشروط ہو۔ اسی لئے محمد بن سلمان نے صدر ٹرمپ کی حمایت کے بل بوتے پر یمن میں فوجی مداخلت کی، ٹرمپ نے سعودی عرب کی خطے میں تمام لن ترانیوں کو نظر انداز کیا۔ محمد بن سلمان کی خواہش یہ بھی تھی کہ ٹرمپ نہ صرف ایران سے کیا گیا معاہدہ معطل کریں بلکہ کسی طرح ایران پر حملہ بھی کر دیں۔ ٹرمپ نے جوہری توانائی کا معاہدہ تو ختم کیا لیکن وہ حملہ نہ کرنا چاہتے تھےاور نہ ہی ان کے بس کی بات تھی۔

خیر اب جب پاکستان کے ساتھ ایک مرتبہ پھر سعودی مراسم بہتر ہونے کا امکان نظر آیا ہے تو بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اس اقدام سے پاکستان اصل میں چینی کیمپ سے نکل کر امریکی کیمپ میں واپس چلا گیا ہے۔ یہ ایک مضحکہ خیز سوچ ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ، اس وقت سعودی عرب خود امریکی کیمپ میں شامل نہیں۔ سعودی عرب کی عموماً اور محمد بن سلمان کی خصوصا دست درازیوں کو روکنے کا عندیہ صدر بائیڈن پہلے دے چکے تھے۔ جمال خشوگی کے سفاک اور بہیمانہ قتل کی وجہ سے امریکی کار سرکار خوش نہیں تھی۔ اور مڈل ایسٹ میں طاقت کا توازن قائم کرنا چاہتی ہے بجائے اس کے کہ کوئی ایک ریاست امریکہ کے بل بوتے پر لوٹ مار کرے۔

یہ نائن الیون کے بعد پہلی بار تھا کہ امریکی سعودیہ سے ناخوش   ہیں ۔ جوبائیڈن نے صدارت کا عہدہ سنبھالتے ہی خشوگی کے قتل کی رپورٹ شائع کی جس میں الزام محمد بن سلمان پر لگا۔ اس حوالے سے خشوگی بین  (پابندیاں) بھی جاری کیا گیا ہے۔ بائیڈن انتظامیہ علی الاعلان یہ بھی کہہ چکی ہے کہ وہ امریکہ سعودی دوطرفہ معاملات پر گفتگو صرف شاہ سلمان سے کریں گے، یعنی محمد بن سلمان کی دراندازیاں قبول نہیں۔ تب ہی تو فروری2021 میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ یمن معاملے میں امریکی تعاون ختم کیا جائے گا۔

نتیجتاً سعودی عرب کو خطے اور دنیا میں اپنی تنہائی کا احساس بڑھنا شروع ہوا۔ امریکی تھپکی کے بغیر سعودی عرب کے لئے یمن جنگ جاری رکھنا یا دیگر ریاستوں میں دراندازی جاری رکھنا مہنگا پڑ سکتا ہے۔۔ بائیڈن حکومت کی کوشش ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کو بحال کریں۔ اس حوالے سے دونوں ممالک میں بات چیت کا آغاز کر دیا گیا تھا اور سعودی عرب کو اندازہ ہونے لگا کہ امریکہ کا جھکاؤ اب ایران کے ساتھ ہو جائے گا۔

جوہری معاہدے کے ساتھ ساتھ ایران کو بھی خطے کے کئی دوسرے معاملات پر راضی کیا جا رہا ہے، یہ وہ نکتہ ہے جس پر محمد بن سلمان نے عراق، شام لبنان اور پاکستان وغیرہ کے علاوہ خود ایران کے ساتھ بھی بات چیت کا راستہ چنا ورنہ سعودی عرب کو دیوار کے ساتھ لگا دیا جاتا۔ صدر بائیڈن لیبیا سمیت خطے کے لئے خصوصی ایلچی مقرر کر رہے ہیں۔

اہم خبر یہ ہے کہ چند روز قبل بائیڈن نے پہلے یو اے ای کے سربراہ سے فون پر بات کی، جس کے فورا بعد یو اے ای کے فرمانروا نے محمد بن سلمان سے رابطہ کیا۔ چند حلقوں کا دعویٰ ہے کہ اس پیغام میں امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کو انتباہ کیا گیا ہے کہ اگر وہ اپنے معاملات اور خطے میں اپنا اثرو رسوخ بڑھانے کے لئے جاری مداخلت کوختم نہیں کرے گا تو سعودی عرب میں تعینات امریکی فوجیں واپس بلا لی جائیں گی۔ یہ فوجیں سعودی عرب کی سیکیورٹی کے لئے سعودی عرب کی خواہش پر موجود ہیں۔ بظاہر لگتا ہے کہ یہ دھمکی کام کر گئی ہے ۔ اس کے بغیرسعودی عرب کے لئے کسی نئی مہم جوئی کا متحمل ہونا ممکن نہیں۔

دوسرا سعودی عرب کی مخالفت میں ایران اور دیگر خلیجی ریاستوں کو امریکہ کی حمایت حاصل ہونے کا امکان ہے ۔ سعودی عرب نہیں چاہتا کہ خطے میں اس کی سیکیورٹی کا مسئلہ بڑھ جائے۔۔ دوسری طرف پاکستان اپنی اقتصادی صورتحال کی وجہ سے طالبان کو پالنا اور ان کے نخرے اٹھانا برداشت نہیں کر سکتا۔پاکستان اب امریکہ کے افغانستان سے نکل جانے کے بعد سعودی پیسے سے طالبان کے اوپر اثر و رسوخ قائم رکھنا چاہتا ہے۔ یاد رہے کہ امریکی انتظامیہ کی طرف سے افغانستان کے مسئلے کے حل کے لئے چین، ایران، روس اور بھارت کو بھی فریق بنا دیا گیا ہے۔

 

 

Comments are closed.