پاکستانی اور امریکی ارکان پارلیمنٹ کی ذہنی سطح شاید ایک جیسی ہے

محمد شعیب عادل

پاکستان میں پیروں،گدی نشینوں، دم درود کرنے والوں کے آگے عوام کو سرجھکاتے یا انہیں نذرانے پیش کرنے کی کوئی ویڈیو سوشل میڈیا پر آتی ہے تو عوام کی ایک بڑی تعداد کی طرف سے لعن طعن یا ان پر سخت تنقید کی جاتی ہے۔ لال مسجد والے مولانا عبدالعزیز ہوں یا حافظ سعید کی کشمیر ریلی، تحریک لبیک کے خادم حسین رضوی ہوں یا گولڑہ شریف کے گدی نشین کی آشیر باد دینے کی ویڈیو میں آپ سینکڑوں یا ہزاروں افراد کو ان کی گفتگو انتہائی عقیدت و احترام اور انہماک سے سنتے پائیں گے۔

پاکستانی سماج میں مذہبی رہنماوں کے مریدوں کی ایک بڑی تعداد ہے جو ان کے منہ سے نکلی ہر بات کو پتھر پر لکیر سمجھتے ہیں اور اب تو وہ الیکشن میں بھی بھاری ووٹ حاصل کر رہے ہیں۔اگر کوئی رکن اسمبلی یا وزیر اعظم کسی پیر یا گدی نشین کے آستانے پر حاضری دے تو کئی قسم کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ اور کہا جاتا ہے کہ آج کے سائنسی دور میں اس طرح کی توہمات پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔

لیکن آپ کو سن کر حیرت ہوگی کہ ایسا امریکہ میں بھی ہوتاہے اور ایسے افراد کی طرف سے جو امریکی یونیورسٹیوں سے مختلف علوم میں اعلیٰ ڈگریوں کے حامل ہیں لیکن عوامی زندگی میں ان کا رویہ بھی شاید خادم حسین رضوی کے مرید جیسا ہی ہے۔

گیارہ مئی کو ریبپلکن پارٹی نے کانگریس میں اپنی اعلیٰ عہدیدار (نمبر 3) لیز چینی کو پارٹی عہدے سے اس لیے فارغ کر دیا ہے کہ وہ صدر ٹرمپ کے اس دعوے کو جھوٹا سمجھتی ہیں کہ الیکشن 2020میں ووٹ چرائے گئے ہیں۔ لز چینی نے ریپبلکن پارٹی کے منتخب ارکان کو کئی دفعہ شرم دلائی کہ تم ایک ایسے الیکشن کو فراڈ کہتے ہو جس میں تم خود منتخب ہوئے ہو۔امریکی سپریم کورٹ سمیت تمام عدالتوں نے بھی صدر ٹرمپ کی طرف سے الیکشن فراڈ کے کیس میں یہی ریمارکس دیئے تھے۔

یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے الیکشن میں دھاندلیوں کے خلاف کئی جگہ نہ صرف دوبارہ اور سہ بارہ گنتی کروائی بلکہ ساٹھ سے زیادہ شکایات مختلف عدالتوں میں درج کروائیں جن کو عدم ثبوت کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا۔ حتی کہ امریکہ کی اعلیٰ عدالت سپریم کورٹ نے ایک سطری فیصلہ دیا کہ ان الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے۔

لیکن صدر ٹرمپ نے ایسا کلٹ بنا لیا لیے کہ کوئی بھی رکن پارلیمنٹ ٹرمپ کے اس دعوے کو جھوٹا قرار دینے کی جرات نہیں کرتا کیونکہ ریپبلکن پارٹی کا ووٹ بینک ٹرمپ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کانگریس میں حزب اختلاف، ری پبلکن پارٹی کے رہنما ، کیون میکارتھی نے بھی صدر ٹرمپ پر سخت تنقید کی تھی جس پر ان کے حلقے کے عوام نے سخت احتجاج کیا تو انھوں نے صدر ٹرمپ کے پاس جا کر اپنی غلطی کی معافی مانگی تھی۔

صدر ٹرمپ نے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایسا کلٹ پیدا کر لیا ہے کہ اگر وہ کہے کہ کسی مرض کے علاج کی یہ دوا ہے تو وہ دوا مارکیٹ سے ناپید ہوجاتی ہے۔انھوں نے ایک دفعہ کہا کہ کورونا وائرس کے علاج کے طور پر ڈیٹر جنٹ پی لیا جائے تو کئی دیوانوں نے وہ بھی پی لیا۔ گو کہ صدر ٹرمپ کو سوشل میڈیانے بلاک کر رکھا ہے لیکن آج بھی جب وہ اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ الیکشن میں فراڈ ہوا اور میرے ووٹ چوری کیے گئے ہیں اور ان کے حامی اس پر سو فیصد یقین رکھتے ہیں۔چھ جنوری کو جب صدر ٹرمپ نے اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ کیپٹل ہل میں ان کے خلاف سازش ہورہی ہے اسے روکنا بہت ضروری ہے تو ان کے حامیوں نے کیپیٹل ہل پر حملہ کیا جہاں الیکشن نتائج کی توثیق کی جارہی تھی۔

امریکہ میں جمہوریت کی تاریخ ڈھائی سو سال پرانی ہے اور آج تک کسی جماعت کی طرف سے الیکشن کی شفافیت پر سوال نہیں اٹھائے۔ صدر ٹرمپ نے الیکشن سے پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ اگر میں ہارا تو اس کا مطلب ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ صدر ٹرمپ نے پہلی دفعہ امریکی الیکشن کو صرف اس لیے جھوٹا اور فراڈ کہا کہ وہ الیکشن جیت نہ سکے۔ عام عوام تو دور کی بات اعلی تعلیم یافتہ امریکیوں کی ایک بڑی تعداد اس کو درست سمجھتی ہے حتیٰ کہ وہ ارکان پارلیمنٹ بھی جو اسی الیکشن میں منتخب ہو کر آئے ہیں اور آئین کی بالادستی کا حلف بھی اٹھایا ہے لیکن وہ ٹرمپ کے دعووں کو جھوٹا کہنے کی جرات نہیں کر سکتے۔

صدر ٹرمپ نے ڈھائی سو سال کے جمہوری عمل پر سوالیہ نشان ڈال دیا ہے ۔ وہ کسی آئیڈیالوجی کے پیروکار نہیں لیکن وہ جو بات منہ سے نکال دیں کسی کو جرات نہیں وہ اس کا انکار کر سکے اور جو انکار کرنے کی ہمت کرتا ہے وہ پھر گمنامی میں چلاجاتا ہے۔جیسے پاکستانی سماج میں جنرل ضیا الحق کے دور نے دورس اثرات چھوڑے ہیں بعینہ اسی طرح صدر ٹرمپ نے امریکہ میں بنیاد پرست گوروں کو ایک نئی زندگی دی ہے جو کسی قانون اور قاعدے کو خاطر میں نہیں لاتے ۔ انہوں نے سماج میں پہلے سے موجود تقسیم کو مزید گہرا کر دیا اور کئی سالوں تک اس کے اثرات محسوس کیے جائیں گے۔

Comments are closed.