کیا مزاح نگار مذہبی تقدس کو مجروح کرتا ہے

ڈاکٹر سہیل گیلانی

لبرل سیکولر معاشروں میں زیادہ تر سٹینڈ اپ کامیڈینز تقدس کے خیال سے خود کو جتنا ہوسکے آزاد کرنے کی محنت کرتے رہتے ہیں ۔جم جیفری ، رکی جارویس ، جارج کارلن ، بل بیلی ، بل مارز، ایڈڈی ازرڈ ، ٹم منچن اور ساورہ سلورمن ، کچھ ایسے نام ہیں جو مغرب میں اسٹینڈ اپ کامیڈی میں دلچسپی رکھنے والوں کے لیے بالکل نئے نہیں ۔ایک لمبی فہرست ان کھلے ملحدوں کی ہے جو مقدسات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہیں اور اپنے پروگرامز میں ان رسوم و روایت کی جم کر ٹھکائی کرتے ہیں۔

یہ سوال کافی عرصہ سے میری ذاتی دلچسپی کا باعث رہا کہ مغرب میں اس فن کو اس قدر پذیرائی کیوں حاصل ہے اور یہ کہ مغرب میں سٹینڈ اپ کامیڈی کی صنعت میں اتنی تعداد ملحدوں کی کیوں ہے۔

پاکستان میں بھی سٹینڈ اپ کامیڈی کی طرف رجحان بڑھتا جا رہا ہے جو ایک حوصلہ افزا بات ہے ، پڑوسی ملک ہندوستان میں تو اب یہ فن اتنی ترقی کر چکا ہے کہ اکثر یہ گمان پایا جاتا ہے کہ وہاں یہ فن بین الاقوامی معیار تک جلد جا پہنچے۔

طنز و مزاح کے میدان میں دیگر فنون لطیفہ کی طرح کئی سارے پہلو ہیں جیسے سیاسی ، ثقافتی ، اقتصادی ، سیاسی اور فلسفیانہ پہلو ۔مزاح کے ماہرین کے مطابق وہ ایک پہلو جو طنز و مزاح کو دیگر فنون لطیفہ سے نہ صرف منفرد بناتا ہے بلکہ خد اپنے آپ میں اس فن کا اہم جز ہے وہ جز جس کے بغیر اسٹینڈ آپ کامیڈی نا مکمل ہے اور وہ پہلو “تقدس “ جیسے نظریئے یا خیال کے ساتھ جڑا ہے ۔

پروفیشنل سٹینڈ اپ کامیڈین یہ بات اچھی طرح سے جانتا ہے کہ وہ مقامات جن پر معاشرہ بولنے سے ہچکچائے ، گھبرائے ، شرم محسوس کرے اور جسے ہر عام بول چال میں بولنا مشکل ہو، اچھا لطیفہ سن کر لوگ دل میں کہیں کہ یہ بات تو ایک آدھ بار میرے ذہن سے بھی گزری مگر فنکار نے اسے اتنی خوبصورتی سے ادا کیا اتنا اچھا کہ مجھے اپنے ہنسنے پر اختیار نہیں رہ سکا۔

مغرب میں تقدس جیسی باتوں سے نفرت کو آزادی اظہار خیال کا اہم جز قرار دیا جاتا ہے ۔ نفرت کلام سے بچتے ہوئے ہر مقدس بات کی ایسی تیسی کرتے مغرب میں سارا سال بڑے بڑے تھیٹر کی زینت یہ سٹینڈ اپ کامیڈینز لوگوں میں ہنسی کے طوفان برپا کرتے ہیں ، اس فن کو مکمل سرکاری اور عوامی تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔

طنزومزاح میں تمام لطف اس لائن کو کراس کرنے میں ہے جہاں فنکار لوگوں کو اپنا قدم رکھ کر دکھاتا ہے جہاں ہر ایک کے جانے کی ہمت نہیں ہوتی ، یہ وہ بات کہتا ہے جو ممنوع ہو اور اپنے اندر ایک معصومیت بھی رکھے ، معاشرے میں موجود منافقت اور اس کے ارد گرد تشکیل دیے گئے تضادات کا ذکر ہوتا ہے جو سب کو پتہ ہیں مگر جن کے بارے میں سب خاموش ہیں اور سب خوشی سے اس خاموشی کی حفاظت بھی کر رہے ہیں۔نامور کامیڈین ،بل مارز، الحاد کوجدید اسٹینڈ آپ کامیڈی کا لازمی جز قرار دیتے ہیں ، انکے خیال میںُ انھیں ایسا کرنے پر کوئی مجبور نہیں کرتا انکے خیالات کو صرف عوامی اور قانونی تحفظ حاصل ہے دیگر یہ کہ اچھے فنکار جانتے ہیں کہ ہنسی کا خزانہ کس کان کے نیچے چھپا ہے۔

مغربی معاشرے میں اس بات کو پذیرائی ملتی ہے جس کے ذریعے معاشرہ اپنے اندر موجود فرسودگی سے ٹکرائے کیونکہ فرسودگی سے ٹکرانا اچھی تعلیم اور سوچ کے لئے نہایت اہم ہے۔ ان کے نزدیک معاشرے میں پائے جانے والے تضادات کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر دیکھنے کے لئے انسانوں کو اخلاقیات کے اس معیار کی ضرورت ہوتی ہے کہ جہاں سے انسان خدا پر اور اپنی ذات اور اپنے اردگرد پر گہری تنقیدی نگاہ رکھ پائے یہ معیار معاشرے کی ترقی اور یونیورسٹی تعلیم کی بنیاد بنتا ہے ۔

اس کے برعکس ہم ادب لحاظ اور تقدس جیسی باتوں کو بہت اہمیت دے دیتے ہیں، کبھی تو لوگ نظریات کا تحفظ اپنی جانوں کی قربانی بھی دے کر کرتے ہیں اور اکثر نفرت کلام اور آزادی اظہار کے بیچ کا فرق سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں۔

لبرل اور سیکولر جمہوریت میں انسانوں کو وہ آزادی ملتی ہے کہ جس کے ذریعے وہ اپنے ذاتی سچ کو ڈھونڈنے کی ہمت کرسکے کیونکہ ارتقائی طور پر انسانی ذہن ہر لمحہ سچ کی تلاش میں ہے ، انسان اپنے سچ کو تب ہی ڈھونڈ پائے گا جب اسے اس عمل کی مکمل آزادی اور ہمت افزائی دونوں مل سکے۔

مقدسات کی موجودگی کو سچ کی تلاش میں دشواری سمجھا گیا ہے اس لیے معاشرہ ایک ایسی صنعت کی آبیاری و حفاظت کی ذمہ داری لیتا ہے جس میں تقدس کی دھجیاں اڑا کر رکھ دینے کی بھر پور صلاحیتیں موجود ہوں۔

الحاد کر رہا ہے مرتب جہان نو

دیر و حرم کے حیلہ غارت گری کی خیر۔

Comments are closed.