کوئی تو ہے جو آمریت کو للکار رہا ہے

ہر پانچ چھ سال بعد ہمارے کچھ صحافی بڑھکیں مارتے ہیں ہیرو بنتے ہیں ، وقتی طور پر معطل بھی ہو تے ہیں اور پھر پچھلی تنخواہ پر کام کرنے لگ جاتے ہیں۔

سنہ 1999 میں بھی کچھ ایسے مناظر دیکھے تھے جب میاں نواز شریف نے جنگ گروپ کے خلاف انتقامی کاروائیاں شروع کی تھیں۔ جنگ گروپ کے خلاف کاروائی کو آزادی صحافت کے منافی قرار دیا گیا۔ ویسے جنگ گروپ بھی ایسے ہی میاں صاحب کے خلاف نہیں ہوا تھا اس کے پیچھے اس وقت کی فوجی ایسٹیبلشمنٹ تھی اور چند ماہ بعد ہی نواز شریف کو بدنام کرکے حکومت سے فارغ کیا گیا۔ لیکن عوام کو یہ باور کرایا گیا کہ پریس آزاد ہے اور یہ آزادی مفت میں نہیں ملی بلکہ صحافیوں نے لڑ کر لی ہے۔۔۔

اگر کوئی ان کے خلاف بات کرتا تو یہ کہہ کر چپ کراد یا جاتا ہے کہ دیکھو کم ازکم آمریت کے خلاف کھڑا تو ہوا ہے۔۔۔

پھر جنرل مشرف کا دور آیا، چند سال امن سے گزرے ۔ جیسے ہی جنرل مشرف نے بھارت سے دوستی کا ڈول ڈالا تو افتخار چوہدری کا قضیہ کھڑا ہوگیا۔افتخار چوہدری کے مسئلے پر تمام آزاد پریس ایک بار پھر جرنیل کے خلاف بڑھکیں مارنا شروع ہوگیا ۔ قوم کو بتایا گیا کہ پریس اتنا آزاد ہو گیا ہے کہ حاضر سروس آرمی چیف کے خلاف ٹاک شوز میں گفتگو ہوتی ہے۔ بڑھکیں مارنے والے صحافی بتاتے تھے کہ یہ آزادی ہمیں کسی نے نہیں دی ہم نے خود لڑ کر لی ہے۔

اور جب افتحار چوہدری بحال ہوگیا تو پھر سب افتخار چوہدری کی چاپلوسی میں لگ گئے اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف محاذ بنالیا ۔ ہمیں یہی بتایا گیا کہ پریس آزاد ہےاور یہ آزادی ہم نے لڑ کر لی ہے۔اگر کوئی ان کے خلاف بات کرتا تو یہ کہہ کر چپ کراد یا جاتا ہے کہ تم حکمرانوں کی کرپشن پر پردہ ڈالتے ہو؟

پھر امریکی افواج نے ابیٹ آباد میں آپریشن کیا اور امریکی بدنام زمانہ دہشت گرد اسامہ بن لادن کو مار کر ساتھ لے گئے۔ آزاد پریس نے اس کا ذمہ دار پیپلز پارٹی کی حکومت کو ٹھہرایا کہ اس نے امریکنوں سے ساز باز کرکے ہماری مسلح افواج کو بدنام کیا ہے۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اسمبلی میں چیختے رہے کہ بھئی سوال یہ بنتا ہے کہ ایک دہشت گرد اتنے عرصہ کیسے ابیٹ آباد میں رہا اور کون سے ادارے اس کی حفاظت کر رہے تھے؟ کیا اس کے پاس پاکستان کا ویزہ تھا اگر تھا تو کس نے جاری کیا۔ لیکن آزاد پریس ، میڈیا اور افتخار چوہدری یعنی آزاد عدلیہ اس سوال پر توجہ ہی نہیں دیتے تھے۔

لیکن ہمیں مسلسل یہ بتایا گیا کہ پریس آزاد ہے اور یہ آزادی حکمرانوں نے ہمیں نہیں دی بلکہ صحافیوں نے خود لڑ کر لی ہے۔

ایک بار پھر نواز شریف وزیر اعظم بنتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ہی عمران خان اور طاہر القادری اپنا تھیٹر لگا لیتے ہیں۔ تمام آزاد پریس عمران خان کی 24/7 کوریج میں ایسے ہی جٹ گیا جیسے افتخار چوہدری کی بحالی کی تحریک میں جٹا تھا۔ آزاد پریس ہمیں یہ بتاتا رہا کہ میڈیا آزاد ہے اور یہ آزادی ہمیں کس اور نے نہیں ہم نے خود اپنی قربانیاں دے کر حاصل کی ہے۔

اب ایک بار پھر صحافیوں کی قربانیوں کا دور شروع ہوگیا ہے ۔ اگر کوئی ان کی سابقہ کارگردگی پر بات کرنے کی کوشش کرے تو کہتے ہیں دیکھو کوئی تو ہے جو آمریت کو للکار رہا ہے۔۔۔۔۔

شعیب عادل

Comments are closed.