سمارٹ فون کیسے تبدیلی لا رہا ہے

محمد شعیب عادل

موجودہ دور میں سمارٹ فون بہت سی تبدیلیوں کا موجب بن رہا ہے۔ صدیوں سے جاری انسانی سماج میں ہونے والے واقعات کو دنیا کے سامنے لے آتا ہے۔ جن واقعات کے متعلق کبھی لوگوں سے زبانی سنا ہوتا تھا اب اپ حقیقی طور پر اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ مدارس میں بچوں کے ساتھ جو کچھ ہوتا چلا آرہا ہے یہ کوئی نئی بات نہیں لیکن موبائل یعنی سمارٹ فون اب ایسے شواہد سامنے لے آتا ہے جس کو جھٹلانا ممکن نہیں۔ اور سوشل میڈیا کی طاقت کی بدولت اب وہ نہ صرف جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھی جارہے ہیں یا کم ازکم ان سے نفرت میں اضافہ ہورہا ہے اور مولوی بھی اب سمارٹ فون کے ذریعے ویڈیو بنا کر اپنی وضاحتیں پیش کررہےہیں۔

کچھ یہی حال امریکہ میں بھی ہے۔ حالیہ سالوں میں سیاہ فام افراد کی تحریک ، بلیک لائیوز میٹرز ، سمارٹ فون کی دین ہے۔

صدر ٹرمپ کے حامی پاکستانی، جو نسل پرست سفید فام میڈیا کی ویب سائٹس سے اپنا علم کشید کرتے ہیں کا کہنا ہے کہ بلیک لائیوز میٹرز نامی تحریک ٹرمپ کے خلاف ایک سازش ہے ۔ حالانکہ اس تحریک کا آغاز 2013 میں صدر اوبامہ کے دور میں ہوا تھا جب ایک سیاہ فام شخص کے قاتل پولیس والے کو عدالت نے بری کر دیا تھا۔

امریکہ میں سفید فام پولیس افسروں کی طرف سے غریب اور نہتے سیاہ فام افراد پر مظالم یا ان کا قتل معمول کی بات ہے۔ عمومی طور پر انہیں جرائم پیشہ افراد سے مقابلہ قرار دیا جاتا تھا اور پولیس عدم ثبوت کی بنا پر بچ جاتی ہے ۔ حالانکہ ہلاک ہونے والوں کے لواحقین چیختے چلاتے رہتے ہیں کہ یہ قتل ناجائز ہوا ہے ۔ لیکن حالیہ سالوں میں جب سے لوگوں کی جانب سے سمارٹ فون پر پولیس مظالم کی ویڈیو بننا شروع ہوئی ہے تو عدالت کے پاس اب پولیس والوں کو سزا دینے کے لیے کوئی آپشن نہیں۔

امریکہ میں کھلے سگریٹ فروخت کرنا جرم ہے۔ لیکن غریب افراد چاہے وہ سیاہ فام ہوں یا سفید فام، پوری ڈبی خرید کر اس میں سے کھلے سگریٹ فروخت کرتے ہیں۔ کبھی تو پولیس اس کونظر انداز کر دیتی ہے اور کبھی اتنا سخت قدم اٹھاتی ہے کہ جان سے مار دیا جاتا ہے۔ 2014 میں نیویارک پولیس کے افسروں نے ایک ایسے ہی سیاہ فام شخص کو، کھلے سگریٹ فروخت کرنے کے جرم میں گردن سے دبوچا تھا اور وہ کہتا رہا تھا کہ میرا سانس رک رہا ہے مگر کسی نے اس کی ایک نہ سنی۔ راہگیروں نے اس کی ویڈیو بنا لی اور پھر امریکہ میں وائرل ہوگئی۔ پورے ملک میں احتجاج شروع ہوگیا۔

جارج فلائڈ کا جرم کیا تھا؟ اس نے ایک گروسری سٹور پر بیس ڈالر کا جعلی نوٹ چلانے کی کوشش کی۔ دکاندار نے پولیس کو بلا لیا ، پولیس اسے گرفتار کرکے لاک اپ میں بند کر سکتی تھی۔ ہر مجرم چاہے وہ سفید فام ہو یا سیاہ فام ، اپنی گرفتاری پر مزاحمت کرتا ہے۔ لیکن ایک غیر مسلح شخص کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ سمارٹ فون کی بدولت دنیا نے دیکھا۔جارج فلائڈ کے کیس میں بھی پولیس نے حسب روایت ایک معمول کی رپورٹ فائل کی کہ وہ شخص جرم کرتے ہوئے پکڑا گیا، اس نے بھاگنے کی کوشش کی اور گرفتار ی پر مزاحمت کی جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہوا ۔ لیکن سمارٹ فون کی بدولت اس پولیس افسر کو 22 سال عمر قید کی سزا ہوئی ہے۔

امریکی سول لبرٹیز یونین کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ امریکہ میں پولیس کے ادارے میں اصلاحات کی سخت ضرورت ہے۔ امریکہ خا ص کر ریڈ سٹیٹس یعنی سرخ ریاستوں میں پولیس کا محکمہ امن و امان سے زیادہ غلاموں کو کنٹرول کرنے کےلیے بنایا گیا تھا۔ اگر کوئی بھی غلام حکم عدولی کرتا تو اس کو کڑی سزا دی جاتی تھی۔

گو کہ امریکہ میں قانون سب کے لیے برابر ہے، کسی بھی رنگ و نسل و مذہب سے تعلق رکھنے والوں سے زندگی کے کسی بھی شعبے میں کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا لیکن اس کے باوجود کالے اور گورے کے درمیان وسیع خلیج ہے۔ مختلف حکومتیں حتیٰ کہ ریپبلکن پارٹی کی حکومتیں بھی اپنے دور میں اس میں بہتری کی کوشش کرتی ہیں لیکن صدر ٹرمپ کے چار سالہ دور نے ایسی تمام کوششوں کو الٹا کر رکھ دیا۔ انھوں نے علی الاعلان نسل پرست سفید فام گروہوں کی حوصلہ افزائی کی۔ یہ کہا جائے کہ صدر ٹرمپ نے سفید نام نسل پرستوں کو ایک نیا حوصلہ و ولولہ دیا ہے تو غلط نہ ہوگا۔

Comments are closed.