جدید غلامی کے خلاف خاموشی کی سازش کیوں ؟

بیرسٹر حمید باشانی

چند دن قبل دنیا بھر میں سیکس ورکرزیا جنسی مزدور کا دن منایا گیا ہے۔ اس دن کے پس منظر میں فرانس کےایک شہر لیون میں پیش آنے والا ایک واقعہ ہے۔ یہ واقعہ دو جون 1975 کو رونما ہوا تھا۔ اس دن فرانسیسی عورتوں کے ایک گروہ نے شہر کے ایک بڑے چرچ پر قبضہ کر لیا۔ عورتوں کا یہ گروہ سیکس ورکرزیعنی جنسی مزدوروں پر مشتمل تھا۔ اس گروہ میں سو سے زائد عورتیں شامل تھیں۔ ان عورتوں نے اپنے پیشے اور مزدوری کی غیر انسانی حالت زار کی طرف ارباب اختیار کی توجہ مبذول کرانے کے لیے یہ اقدام کیا تھا۔

اس واقعے کا پس منظر یہ تھا کہ انیس سو ستر کی دہائی میں فرانسیسی حکام نے ملک میں موجود جنسی مزدوروں، جسم فروشوں اور اس کاروبار سے جڑے دوسرے افراد کے خلاف سخت پالیسی اپنانے کا اعلان کیا۔ اس پالیسی کے نتیجے میں فرانس میں پولیس نےسخت اقدامات شروع کر دیے۔ شہروں میں ان لوگوں پر کڑی نظر رکھی جانے لگی۔ جس کی وجہ سے ان کے لیے معمول کے مطابق کام کرنا مشکل ہوگیا۔ پولیس مداخلت اور سختی کی وجہ سے یہ لوگ  خفیہ طریقے سے زیر زمین کام کرنے پر مجبور ہو گئے۔ زیر زمین ہو جانے کی وجہ سے یہ لوگ جرائم پیشہ افراد کے خلاف پولیس کےتحفظ سے محروم ہوگئے اور نتیجتاً ان کے خلاف تشدد اور جرائم کے واقعات بڑھنے لگے۔ تشدد کے کئی واقعات کے علاوہ شہر میں یکے بعد دیگرے سیکس ورکرز کے قتل کے واقعات بھی ہوئے۔

حکومت کی طرف سے کوئی قدم نہ اٹھانے کی وجہ سے سیکس ورکرزنے متحد ہوکر مظاہرے شروع کر دیے، اور لیون شہر کے مشہور چرچ سینٹ نیزائر پر قبضہ کر لیا۔آٹھ دن بعد پولیس ایکشن کے ذریعے چرچ سے ان کا قبضہ ختم کروایا گیا، لیکن یہ واقعہ جنسی مزدوروں کی ایک عالمی تحریک کا نقطہ آغاز بن گیا۔ اس واقعے کو لے کر دو جون کو سیکس ورکرز کا عالمی دن قرار دیا گیا، جو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔

پاکستان میں یہ دن اس طرح نہیں بنایا جاتا، جس طرح دنیا کے کچھ دیگر ممالک میں بنایا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستان میں جسم فروش لوگ نہیں ہیں۔ یا ان کے کوئی مسائل نہیں ہیں، بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان مسائل میں سے ایک ہے ، جن پر کھلی گفتگو سے پرہیز کیا جاتا ہے۔ اور عام طور پر ایسے مسائل کے بارے میں یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ وہ موجود ہی نہیں ہیں۔ حالاں کہ تلخ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیکس ورکرز، جسم فروشی یا زیادہ مہذب زبان میں عصمت فروشی کے کاروبار سے ہزاروں لوگ وابستہ ہیں۔ لیکن سماجی مسائل پر ہمارا منافقانہ طرز عمل، اور سوچ میں بے پناہ تضادات ہمیں اس طرح کے حقائق سے انکار پر مجبور کرتے ہیں۔

دنیا کے کئی دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں یہ کاروبار غیر قانونی اور ممنوع ہے۔ یہاں کی قدامت پرستانہ سماجی اقدار کی وجہ سے سماجی اعتبار سے اس کام کو ایک بد نما دھبہ سمجھا جاتا ہے۔ اور سماج پر اسلامی تعلیمات اور اخلاقیات کی گہری چھاپ کی وجہ سے اس کو ایک گھناؤنا فعل اور عظیم گناہ بھی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود یہ کام جاری ہے۔چونکہ اس نوعیت کے کام کے لیے سماجی حالات سخت نا سازگار ہیں، جس کی وجہ سے یہ کام خفیہ اور زیر زمین ہوتا ہے۔ زیر زمین ہونے کی وجہ سے یہ کام کرنے والے لوگ قانونی تحفظ سے محروم ہیں۔ جس کی وجہ سےیہ افراد تشدد، لوٹ مار اور استحصال کا شکار ہوتے ہیں۔اس طرح کے کاروبار میں ملوث افراد اپنے خلاف ہونے والی کاروائی کے خلاف شکایت لے کر پولیس کے پاس جانے یا عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے کتراتے ہیں۔ اور سماجی سطح پر  کسی سے مدد لینے سے اجتناب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، اس لیے یہ قانونی تحفظ کے دائرے سے باہر ہوتے ہیں۔

سیکس ورکرز کا کاروبار صرف جسم فروشی تک محدود نہیں۔ اس کے کئی روپ اور طریقے ہیں۔ اس کا ایک بڑا میدان فحش و عریاں تصاویر یا وڈیو کا کاروبار ہے۔ یہ کاروبار بھی پاکستان میں زیر زمین وسیع پیمانے پر جاری ہے۔اب تو ٹیکنالوجی کی وجہ سے یہ کاروبار عالمی شکل اختیار کرچکا ہے۔ پاکستان ماضی میں پورنوگرافی کو لے کرکئی بار بڑے بڑے سکینڈل منظر عام پرآئے ہیں۔ ان میں ایسے لوگوں کو بھی گرفتار اور بے نقاب کیا گیا ، جن کا تعلق پورنوگرافی کے عالمی مافیا سے تھا۔ سائبر سپیس میں ڈارک ویب کے ساتھ بھی ایسے لوگوں کے تعلق کے انکشافات ہوئے ہیں، جو چائلڈ پورنوگرافی میں ملوث تھے۔ لیکن حقیقت میں یہ جرائم جس پیمانے پر منظر عام پر آئے ہیں، اس سے کئی زیادہ سماج میں پائے جاتے ہیں۔اس میدان میں بہت سارے جرائم پولیس کے خوف، شعور کی کمی، سماجی دباو اور دوسری وجوہات کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں کیے جاتے۔

جسم فروشی کے کاروبار کے ساتھ جڑا ہواایک اور بڑا مسئلہ انسانی خرید و فروخت اور جبری غلامی بھی ہے۔ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے۔ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں بچوں اور خواتین کی اس مقصد کے لیے خرید وفروخت کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ مسئلہ پوری شدت سے موجود ہے ، مگر اس سے صرف نظر کیا جاتا ہے، کہ اس کا شکار زیادہ تر غریب اور سماجی طور پر پسماندہ طبقات ہیں۔ انسانی خرید و فروخت ایک طرح کی جدید دور کی غلامی ہے۔ اس کا شکار ہونے والوں کو ایسی صورت حال میں ڈال دیا جاتا ہے، جس میں وہ غلام کی طرح احکامات پر عمل کرنے پر مجبورہو جاتے ہیں۔ اس میں چھوٹے بچے، نا بالغ، عورتیں اور ہر طرح کے لوگ شامل ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن  کی دو ہزار بارہ کی  ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں بیس ملین لوگ جبری مزدوری پر مجبور تھے، ان میں سے چار ملین سے زائد جنسی مزدوری  کرتے تھےیا استحصال کا شکار تھے۔ دو ہزار سولہ تک یہ تعداد پچیس ملین تک پہنچ چکی تھی۔ لیبر آرگنائزیشن کے اندازے کے مطابق  اس وقت دنیا میں اس کاروبار سے سو بلین کے قریب  منافع کمایا جاتا ہے۔ اس عالمی تجارت سے ہر ملک کسی نہ کسی طریقے سے جڑا ہے۔ پاکستان سمیت دنیا میں شاید ہی کوئی ایسا ملک ہو، جس میں جنسی مزدور یا اس کاروبار سے جڑے لوگ موجود نہ ہو۔ کچھ استشناوں کے علاوہ اس کاروبار تعلق براہ راست غربت اور سماج کی طبقاتی تشکیل اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم سے ہے۔

دنیا بھر میں دانشوروں اور سماجی سائنس دانوں کی ایک بڑی تعداد کا خیال ہے کہ اگر اس طرح کے کاروبار کے بارے میں سنجیدہ قانون سازی اور اس قانون پر سختی سے عمل درآمد کیا جائے، تو ان لوگوں کے ساتھ ہونے والے ظلم و تشدد اور دوسرے غیر قانونی اقدامات میں کمی آسکتی ہے۔ اس سلسلے میں سکینڈے نیویا کے کچھ ممالک کے تجربات سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ ان ممالک نے جسم فروشی پر قابو پانے اور اس کے ساتھ جڑے تشدد اور نا انصافی کے واقعات کی روک تھام کے لیے قانون سازی کی اور کامیابی سے اس پر عمل درآمد بھی کیا۔

سکینڈے نیویا کے اس ماڈل کو ایک قابل عمل ماڈل سمجھ کر کینیڈا، امریکہ سمیت مغرب کے بیشتر ممالک میں اپنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستان میں منافقانہ سماجی رویوں اور معاشرے کے پسے ہوئے طبقات کے بارے میں بے رحمانہ لاتعلقی کی وجہ سے اس مسئلے پر ابھی گفتگو کا آغاز ہی نہیں ہوا۔ لہذا ان لوگوں کے حقوق یا ان کو قانونی تحفظ کے اندر لانے کا سوال ابھی تک کسی سنجیدہ فورم پر نہ تو زیر بحث ہے، اور نہ ہی مستقبل قریب میں اس کے امکانات نظر آتے ہیں۔ گویا ان لوگوں کے بارے میں خاموشی کی پالیسی ہے۔

بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ انسانی حقوق کے علمبردار روشن خیال حلقے بھی اس موضوع پر زیادہ تر دائیں بازوں کی قدامت پرستانہ سوچ ، فکر اور سماجی دباو سے آزاد نہیں ہو سکے، اس لیے یہ لوگ بھی اس خاموشی کی سازش میں برابر کے شریک ہیں۔

Comments are closed.