کینیڈا میں چار پاکستانیوں کا قتل


محمد شعیب عادل

کینیڈا میں چار افراد کے قتل کا واقعہ انتہائی افسوسناک ہے ۔ وزیراعظم ٹروڈو نے اس واقعے پر گہرے دکھ اور غم کا اظہار کیا ہے۔ عمومی طور پر مغربی ممالک ، پاکستان جیسے نام نہاد اسلامی یا نظریاتی ملکوں سے ہزار گنا بہتر ہیں جہاں کے معاشرے ،سماجی اور قانونی انصاف میں انسانوں کے درمیان کوئی امتیاز نہیں کرتے۔ ہاں جرائم پیشہ عناصر ہر جگہ موجود ہوتےہیں او ر ان معاشروں میں کبھی کبھار اس طرح کے واقعات ہوجاتے ہیں لیکن مجرموں کو کڑی سزا ملتی ہے۔ ایسے جرائم امریکہ میں بھی ہوتے ہیں لیکن مجرم بچ نہیں سکتا۔ دوسال پہلے نیوزی لینڈ میں ایسا واقعہ ہوا تھا جس میں وزیر اعظم نے نہ صرف گہرے دکھ کا اظہار کیا مرنے والے خاندانوں کی دل جوئی کی اور قانون کے مطابق مجرم کو سزادی گئی۔

جب کسی مغربی ملک میں انتہا پسند گروہ یا شخص کسی مسلمان کو قتل کردے تو اسلامو فوبیا کا شورمچایا جاتا ہے ۔ اسلامو فوبیا کی اصطلاح بھی ہمارے شدت پسند مسلمانوں کی ہی وضع کردہ ہے جس کی آڑ میں وہ مغربی ممالک میں جاری اپنی انتہا پسندانہ سرگرمیوں کو کیموفلاج کرتے ہیں۔ ایک وقت تھا جب پوری مغربی دنیا میں جہادی تنظیمیں اپنی دہشت گردانہ کاروائیوں میں مصروف تھیں اور وہ علی الاعلان غیر مسلموں کو کافر کہتے تھے اور مغربی معاشروں میں شریعت نافذ کرنے کی ٹائم لائن دیتے تھے۔ اور اللہ واکبر کا نعرہ لگا کر خود کش حملے کرتے تھے ۔ اس طرح کی سرگرمیاں جب پریس میں رپورٹ ہوتی تھیں تو یہی قیادت الٹا مغرب کو اسلامو فوبیا کے طعنے دیتی تھی۔ یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ مسلمان مغربی معاشروں میں سیکولرازم سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شریعت نافذ کرنے کا ایجنڈہ آگے بڑھاتے ہیں۔

اب اس طرح کے واقعات کو لے کر پاکستان کے مذہبی عناصر مغربی ممالک کے خلاف اپنے روایتی غصے کا اظہار کرتےہیں اور انہیں اسلام دشمن ثابت کرنے کی اپنی سی کوشش کرتے ہیں لیکن انہیں اپنے ممالک میں جاری مظالم نظر نہیں آتے۔ابھی چند دن پہلے کی بات ہے کہ مسلمان بھائی ایک احمدی خاتون کی میت کو دفن کرنے سے روک رہے ہیں۔ توہین مذہب کے نام پر اقلیتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہندو اور مسیحی لڑکیوں کو جبری طور پر مسلمان کیا جاتا ہے۔ کوئی دن نہیں گذرتا کہ پختون اور بلوچ اپنے علاقوں میں جاری ریاستی مظالم پر نوحہ کناں ہیں لیکن مجال ہے کہ وزیراعظم سمیت کوئی بھی اس قتل کی مذمت کرے۔

مجھے امریکہ کی کئی مساجد میں جمعے کے خطبے سننے کا موقع ملا ہے، کم وبیش تمام امام صاحبان اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ میں فحاشی بہت ہے،ان کا کلچر خراب ہے، سور کھاتے ہیں ، زنا کرتے ہیں ،شراب پیتے ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ان معاشروں میں ایسی برائیوں کو روکا جائے اور اگر روک نہیں سکتے تو دل میں تو برا کہہ سکتے ہیں۔ چونکہ انہیں یہ بخوبی علم ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینے کا نتیجہ کیا ہوگا اس لیے انہیں دل ہی دل میں برا کہتے  رہتےہیں۔

چند دن پہلے میں آٹو ورکشاپ میں گاڑی کی سروس اور ٹیوننگ کے لیے گیا ۔ اس ورکشاپ میں مسلمان، ہندو، سکھ، مسیحی گورے اور کالے کام کرتے ہیں۔ تمام ملازمین کو تنخواہ اور دیگر مراعات ایک جیسی ملتی ہیں۔میری دوستی ایک پاکستانی سے ہے ۔ میڑک پاس ہے گجرات کا رہنے والا ہے، انتہائی محنتی ہے اچھا کام کرتا ہے،گجرات کے واقعات سناتا ہے ، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرتا ہے اور پھر مجھے آہستہ سے کان میں یہ بھی کہتا ہے کہ “باؤ جی ان کا دین ایمان تو کوئی نہیں ہے نا، ان پر اعتبار کیسے کیا جا سکتا ہے”۔۔۔۔۔۔

Comments are closed.