کیا ہمیں ایک آئیڈیل نظام چاہیے؟

محمد شعیب عادل

وہ پاکستانی ریٹائرڈ لیفسٹسٹ جو 70 اور 80 کی دہائی میں لیفٹ کی سیاست کرتے رہے ہیں پھر سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد  مایوس ہو کر این جی اوز میں کھپ گئے آج کل فیس بک پر ان کے ارشادات گرامی دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ماضی میں کس قسم کی سیاست کرتے رہے ہونگے۔

اور جو حاضر سروس لیفٹسٹ ہیں ان کا حال پچھلوں سے بھی برا ہے۔ مغرب کے اعلی تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل تو کرتے ہیں اور پھر انہی کے نظام جمہوریت پر تنقید کرتے ہیں اور پاکستان میں جمہوری عمل کے قیام کی بجائے انھیں غیر ملکی ایجنڈے پر کام کرنے کے طعنے دیتے ہیں۔لیکن پاکستان کی جمہوریت دشمن قوتوں کو نشانہ بنانے سے گریز کرتے ہیں

لیفٹسٹ ہوں یا رائٹسٹ دونوں ایک آئیڈیل نظام کا پرچار کرتے ہیں۔ جو تمام غلطیوں سے مبرا نظام ہے۔

جب ان سے پوچھا جائےاس پر عمل کیسے ہوسکتا ہے تو دونوں کا اصرار ہوتا تھا کہ اس کے لیے خونی انقلاب چاہیے۔۔۔ ویسے آجکل یہ انقلاب کی بات کرتے ہوئے جھجک جاتے ہیں اس لیے دبے لفظوں میں جمہوریت کے ذریعے اپنا آئیڈیل نظام نافذ کرنے کی بات کرتے ہیں۔بنیادی طور پر یہ کنفیوذڈ لوگ ہیں۔ ایک دفعہ میں نے پروفیسر ڈاکٹر تیمور رحمن سے پوچھا کہ آپ اپنا نظام کیسے نافذ کریں گے تو انھوں نے انقلاب فرانس کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں پہلے انقلاب آیا تھا اور پھر جمہوریت۔

کچھ اسی قسم کی بات ہمارے پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری بھی کرتے ہیں۔

لیفٹسٹ ہوں یا رائٹسٹ، یہ جمہوریت کو اقتدار میں آنے کے لیے بطور سیڑھی استعمال کرتے ہیں اور جب اقتدار میں آ جائیں تو پھر سب کو ساتھ ملا کر چلنے کی بجائے اپنے آئیڈیل نظام کو نافذ کرنا شروع کردیتےہیں۔ترکی کے صدر اردعان نے کہا تھا کہ جمہوریت وہ ٹرین ہے جب آپ کا مطلوبہ اسٹیشن آجائے تو آپ اتر جائیں۔

ظاہر ہے جب آپ کے پاس آئیڈیل نظام ہے تو پھر اس پر تنقید کی کوئی گنجائش نہیں رہتی۔ اور اگر کوئی بھولا بھٹکا تنقید کر ہی د ے تو پھر آئیڈیل ریاست اس کا جو حال کرتی ہے وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئیڈیل نظام اصل میں آمریت ہی کا دوسرا نام ہے۔

دنیا میں آئیڈیل نظام آ ہی نہیں سکتا یہ سب کتابی باتیں ہیں۔اگر عوام کی فلاح و بہبود اور ان کا معیار زندگی بلند کرنا ہے اور انہیں زندگی کی تمام سہولتیں مہیاکرنی ہیں تو پھر اس کے لیے ہمارے پاس جمہوریت سے بہتر کوئی نظام نہیں ہے۔ابھی تک جمہوریت ایک بہترین نظام ہے، جو ظاہر ہے آئیڈیل نہیں ،اگر اس میں بے شمار خرابیاں ہیں تو اچھائیاں بھی بہت زیادہ ہیں۔

جمہوریت میں اتار چڑھاؤ بھی آتے ہیں۔ اچھے برے لوگ بھی منتخب ہوجاتے ہیں۔جمہوریت میں بھی آمرانہ ذہن کے لوگ منتخب ہوجاتے ہیں لیکن  جمہوریت میں بہرحال اتنی لچک ہے کہ وہ مخالف کی تنقید بھی سن لیتا ہے اور اپنی غلطیوں کو درست بھی کرتا ہے۔

Comments are closed.