نوجوان اپنے سماج سے بدظن کیوں ۔۔۔۔؟

پائندخان خروٹی

پل پل بدلتی دنیا میں ہر جگہ قوم کی تعمیروترقی میں نوجوانوں کے کردار پر گرما گرم بحث و مباحثیں ہورہی ہیں۔مسلم ممالک کو تو درپیش سیاسی اور معاشی چیلنجز سے مقابلہ کرنے کی آخری اُمید نوجوان نسل ہی رہ گئی ہے۔ بلاشبہ یہی نوجوان قوم کی شاندار کامیابی و سُرخروئی کی ضمانت ہے۔ پاکستان میں تو یہ مقبول عام نعرہ بن گیا ہے کہ یہ ہماری خوش بختی ہے کہ ہماری کل آبادی کا بڑا حصہ جوانوں پر مشتمل ہے۔

قوم کا ایک درخشاں مستقبل یقیناً جوانوں سے وابستہ ہوتا ہے کیونکہ نوجوان قومی اور جمہوری انقلاب کا ہر آول دستہ ہوتا ہے جبکہ کل آبادی کا بڑا حصہ جوانوں پر مشتمل ہونے والا بیانیہ کو ایک دوسرے پہلو سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور میں بذات خود معاشرے میں نوجوانوں کی کثرتِ آبادی کو بدانتظامی اور منصوبہ بندی کے فقدان کے مترادف سمجھتا ہوں۔ مطلب کہنے کا یہ ہے کہ ہماری کل آبادی کا بڑا حصہ جوانوں پر مشتمل ہونے میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے۔

غربت اور بےروزگاری کی وجہ نوجوانوں کی ‏کثرت آبادی رحمت کی بجائے زحمت بھی بن سکتا ہے۔ پہلے تو یہ برتھ کنٹرول کے حوالے سے بدانتظامی ہے۔ دوسرا یہ کہ جوانوں کی صلاحیتوں کو بروئے کار نہ لانا سیاسی اور ریاستی سطح پر جامع منصوبہ بندی کی غیرموجودگی ہے۔ لہٰذا دونوں پہلوؤں سے یہ ریاست اور اداروں کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نوجوان محض مستقبل کے معمار نہیں بلکہ ہمارے حال کے شراکت دار بھی ہیں۔

بدقسمتی سے ملک و قوم کی تعمیر وترقی میں ریاستی سطح پر وضع کرنے والے منصوبوں اور پالیسیوں میں نوجوان یکسر نظر انداز ہیں۔ موجودہ تقاضوں اور انسانی ضروریات کے مطابق ان کو جدید مہارتیں سکھانے اور ان کی پوشیدہ صلاحیتوں کو اجتماعی مفاد میں بروئے کار لانے کا کوئی قابل عمل منصوبہ نظر نہیں آتا۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں سے ہر سال فارغ التحصيل ہونے والے لاکھوں اعلیٰ اور پروفیشنل ڈگری یافتہ انجینئرز اور ڈاکٹرز ملازمت کی تلاش میں مارے مارے پھرتے ہیں۔ ان لاکھوں میں سے چند ہزار کو بھی سالانہ روزگار میسر نہیں ہوتے۔

شدیدغربت، بیروزگاری اور مہنگائی کی وجہ اکثریت ذہنی کوفت میں مبتلا ہیں۔ خرافات وتوہمات پر مبنی رسم رواج سے نوجوان نسل بڑی تیزی سے بدظن ہورہے ہیں۔ مغل دربار کے راجہ بیربل کے لطیفوں اور شیخ سعدی کی حکایتوں سے مزید ورغلانے کا وقت بھی ختم ہو چکا ہے۔ استحصالی اور سامراجی عناصر کے خلاف ان میں باغیانہ جذبات اُبھر رہے ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کا انقلاب برپا ہونے کے بعد اب نوجوان جھوٹی تسلیوں، بلند بانگ دعووں اور نمائشی اقدامات سے مطمئن نہیں ہوتے۔

اس وقت لاکھوں جوانوں کی شاندار صلاحیتیں زنگ الود ہورہی ہیں۔ انھیں روایتی تعلیم اور پرولتاریہ مخالف ظریفانہ چٹکلے نہیں چاہئے کیونکہ وہ پل پل بدلتی دنیا میں نئی عقلی اور سائنسی چیزیں سیکھنا چاہتے ہیں۔اسی لئے وہ موجودہ اہل فکروقلم کے غیرضروری اور غیرمتعلق مردہ علم و ادب سے بھی مطمئن نہیں ہوتے۔نوجوانوں کی اکثریت روایتی لکھاریوں اور فل برائٹ پروفیسروں کے ماضی کے تراشوں کو دوبارہ جمع کرنے، بےجان نصاب اور مردہ ادب کو چند صفحوں کے اضافے کے ساتھ ایک دفعہ پھر ترتیب و تدوین کی چالاکیوں سے خوب واقف ہو چکے ہیں۔

ادب، مذہب اور میڈیا والوں کے پاس نوجوانوں کو صبر اور شکر کی تلقین کے علاوہ کچھ بھی باقی نہیں رہا۔ مذہبی اور روایتی پند و نصیحت سے بڑی تیزی اعتماد اٹھتا جارہا ہے۔ نئی نسل اس حد تک باغی ہوچکی ہے کہ اپنے معروضی حالات سے باخبر ہونے اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے کئی سمندر پار تحقیقی و تخلیقی مواد سے استفادہ کرنے پر مجبور ہے جبکہ یہاں مفت ملنے والی ادبی، مسلکی اور نصابی کتابوں کو ذاتی لائبریری میں رکھنے کیلئے بھی تیار نہیں۔

لہٰذا ایک بات ثابت ہوچکی ہے کہ سیکھنا بہت خوشگوار اور دلچسپ عمل ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ سیاسی اور معاشی سطح پر غیرمنظم اور بےربط فعالیت کا کوئی خاص نتیجہ نہیں نکلتا لہٰذا ضروری ہے کہ جلد از جلد ایک جامع پالیسی وضع کیا جائے تاکہ غیرمنظم جوانوں کو منظم کرنے اور انکے ذہنوں کو جدید علمی جہان بینی سے روشن کرنے کیلئے انہیں فکری رہنمائی اور مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرنے میں مدد ورہنمائی مل سکیں۔ اس طرح یہی پھر آگے جاکر باشعور اور سیاسی طور پر منظم جوان معاشرے کے دیگر افراد کیلئے سیاسی وژن اور سائنسی سوچ و اپروچ کا باعث بنتے ہیں۔

آج بھی معاشرے کو ہر قسم کے رجعتی عناصر سے پاک رکھنے اور درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے نوجوان ہی بھرپور اور موثر اقدامات اٹھا سکتے ہیں۔ چونکہ ہر جوان قومی کاروان کا لازمی حصہ ہے لہٰذا ضروری ہے کہ جوانوں کی پوشیدہ صلاحیتوں میں نکھار پیدا کرنے، انکے قیمتی وقت وتوانائی کے ضیاع سے بچانے، معاشرے میں باعزت مقام پانے کی راہ ہموار کرنے اور ان صلاحیتوں کو ملک وقوم کے بہترین مفاد میں بروئے کار لانے کا وقت آپہنچا ہے۔جدید تقاضوں کے ساتھ ہم قدم ہونے کیلئے دستیاب صلاحیتوں کا انتخاب اور کار اہل کار کے سپرد کرنا بھی خلقی سیاسی بصیرت کا متقاضی ہے۔ جدید تعلیم وہنر کے ساتھ ساتھ اُن کا اخلاق و کردار سنوارنا بھی عملی زندگی میں بہت اہم ہے۔ گویا جدید علم ودانش کے ساتھ سیف وقلم کے مالک خوشحال خان خٹک کی خودی اور خوداری ہمارے نوجوان کیلئے سونے پر سہاگہ ثابت ہوگا۔

جب تک تمام معاشی و معاشرتی سرگرمیوں میں نوجوانوں کی شرکت و شمولیت کو حکومتی سطح پر پالیسی سازی کا لازمی حصہ نہیں بنایا جاتا اور بےروزگار نوجوانوں کیلئے وفاقی و صوبائی بجٹ میں رقم مختص نہیں کی جاتی تو اس وقت تک کسی قسم کے تعمیری نتائج برآمد ہوں گے۔نوجوانوں کو درپیش تمام مسائل ومشکلات اور اپنے قومی مزل و منزل کو صرف پولیٹکل اکانومی کے تناظر میں جانچنا ہوگا بصورت دیگر انقلاب فرانس اور بالشویک انقلاب کا دیا ہوا سبق دوامدار انداز میں دوہرایا بھی جا سکتا ہے۔

Comments are closed.