نور مقدم کیس ، غیر معمولی قتل

 محمد عمران علی

آجکل سوشل میڈیا اور پاکستانی چینلز میں نور مقدم کا  سر قلم  کرنے  کی  خبریں  زبان زدِ عام ہیں ۔

نور مقدم دراصل ایک سابق پاکستانی سفارت کار کی اسلام آباد میں مقیم ستائیس سالہ بیٹی تھی۔ 20 جولائی 2021  کی رات پولیس نے  ظاہر ذاکر جعفر کی والدہ اور والد کے ساتھ  دو گھریلو  ملازمین کوگرفتار کیا، جن پر شواہد چھپانے کا الزام ہے۔

نور مقدم  کا  سر قلم کیے جانے، جسم پر جا بجا  تشدد کے نشانات اور چھرا گھونپنے کی حیران کن تفصیلات سے پاکستان کی عوام  میں غم، غصے  اور بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔ کسی بھی ملک کے جرائم کی شرح اس ملک کی ترقی  اور تحفظ پر اثر انداز ہوتی ہے۔  جرائم کی بڑھتی شرح نے  زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے۔ برسوں پرانا نوآبادیاتی تعزیراتی نظام ان جرائم پر قابو پانے میں ناکام چکا ہے اوراِس میں تبدیلی کی اشد ضرورت ہے۔ جرائم پر قابو پانے اور معاشرے پر اس کے برے اثرات کو کم کرنے کا واحد طریقہ ذمہ دار افراد کو مناسب سزا دینا اور ان پر بغیر کسی تاخیر کے عمل درآمد کرنا ہے۔

جب بھی کوئی جرم کا ارتکاب کرتا ہے  تواس جرم کے لیے ایک عدالتی نظام موجود ہوتا ہے، اور بعینہ عدالتی نظام  کی  موجودگی فی نفسہ اس بات کا ثبوت ہے کہ  وہاں سزا کا  نظام بھی قائم  ہے۔ اس طرح سزا کو کسی ایسے مجرم یا بدبخت فرد کے خلاف انتقامی کارروائی  نہیں سمجھنا چاہیے، بلکہ یہ ریاست کی اپنے شہریوں کے تئیں انتہائی ذمہ داری کا  کام  ہے کہ وہ ان کے وقار، حفاظت، سلامتی اور واضح طور پر  انسانی حقوق کی پاسداری کو یقینی بنائے اور رعایت کی بجائے سزائے موت  کی سزا  ہونی چاہیے۔ جب تک سزائے موت پر سختی سےعمل درآمد نہیں ہوگا، جرائم میں کمی ایک  خواب  بن کر رہ جائے گی۔

 سزائے موت کی ضرورت مسلسل محسوس کی جاتی رہی ہے اس سزا کو سختی سے نافذ کرکے قوم کو تمام برائیوں سے پاک کرکے ملک کو رہنے  کے قابل بنایا جاسکتا ہے۔ پاکستان پینل کوڈ کے تحت تسلیم شدہ سزائیں سزائے موت، عمر قید، قید یا قیدِ با مشقت، جرمانہ یا جائیداد کی ضبطی ہیں۔ جرائم کی  موجودگی اور اس کی پشت پناہی معاشرے کو تباہ کر رہی ہے۔ 

موجوددہ دورمیں تقریبا تمام ممالک میں ایسے خاص الخاص کیس میں سزائے موت دی جانی  چاہئے تاکہ اس کا نفاذ کم تکلیف دہ ہو۔  جب تک معاشرے میں جرائم کی روک تھام کے لیے کوئی مناسب حل تلاش نہیں کر لیا جاتا، سزائے موت کو جاری رکھا جانا چاہیے۔ اس طرح کا سفاکانہ اور غیرمعمولی قتل انتہائی وحشیانہ، تکلیف دہ  اور قابل مذمت انداز میں کیا جاتا ہے جس سے  لوگوں میں  شدید غصے اور غیظ و غضب کے جذبات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ غیر معمولی و شاذ کیسوں کے زمرے میں آتا ہے۔

 اس طرح کے غیر معمولی و شاذونادر انداز کے کیس کی کوئی قانونی تعریف نہیں ہے۔ یہ ڈاکٹرائن کی بنیاد بھارت میں بچن سنگھ بمقابلہ ریاست پنجاب (684 ایس سی سی 2 (1980)) کے کیس میں رکھی گئی تھی۔ ایسے  مقدمات میں، مناسب سزا کے تعین کے لیے جرم کی نوعیت اور تشدد  کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔ عدالت اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام سمجھی جائے گی اگر ایسے جرائم کے لیے متناسب سزا نہ دی جائے جو نہ صرف کسی ایک فرد کے خلاف کیے گئے ہوں بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ بڑے پیمانے پر ان کا ارتکاب معاشرے کے خلاف کیا گیا ہے۔ اگر وقت پر سزا نہ ہوتو ظلم اور بربریت فروغ پاتا ہے۔

ریاست کا کام  انصاف فراہم کرنا  ہے۔اس طرح کے غیر معمولی کیس کو اور انصاف کو قائم رکھنے کے لیے سزائے موت کی قانون سازی اور اس پر عملدرآمد ہونا ضروری ہے۔ معاشرے کی بقا کی ضامن ریاست ہے اور ریاست  عدالت کے بغیر کوئی کام سر انجام نہیں دے سکتی۔ اسی طرح  کے ایک کیس، مچھی سنگھ بمقابلہ پنجاب (اے آئی آر 1983 ایس سی 957) میں، تین ججوں کے بینچ نے مشاہدہ کیا کہ غیرمعمولی کیسوں میں معاشرے کے اجتماعی ضمیر کواس حد تک دھچکہ لگتا ہے کہ وہ عدالتی اختیارات رکھنے والوں سے سزائے موت کا تقاضا کرنے لگتا ہےعدالت کا کہنا تھا کہ معاشرہ ایسے حالات جیسا کہ جرم کے ارتکاب کا طریقہ کار، جرم کرنے کا محرک، بطور کل جرم کا معاشرتی اثر، حقائق اور حالات جو جرم کی طرف لے جاتے ہیں، ملزم کے ہاتھوں معاشرے کے اراکین کو نقصان پہنچنے کا احتمال، جرائم کی  نوعیت اور شدت، اور جرم کا شکارہونے والے کی انفرادیت۔

سب سے بڑھ کراس غیر معمولی یا شاذ و نادر ڈاکٹرائن کو ختم کیا جانا چاہیےاور استثناء کی بجائے سزائے موت کا قانون ہونا چاہیے۔ جب تک سزائے موت کی سخت  سزا پرعمل درآمد نہیں ہوگا، جرائم میں کمی  نہیں آ سکتی۔ اب جبکہ سزائے موت کی ضرورت بدرجہ اتم محسوس کی جا رہی ہے، تو آپ محسوس کرتے ہیں کہ خاندانی دشمنیوں کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہ کوئی ایسی چیز نہیں جس پر فخر کیا جائے بلکہ یہ شہریوں کی طرف ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان کی عزت، سلامتی و تحفظ اور سب سے بڑھ کر ان کے بنیادی انسانی حقوق کو یقینی بنائے۔ دیر سے ہونا کبھی نہ ہونے سے بہرحال بہتر ہے۔ آئیے سزائے موت پر سختی سے عمل درآمد کرتے ہوئے اپنی قوم کو تمام برائیوں سے پاک کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنے وطن کو رہنے کے لیے ایک بہتر جگہ بنائیں۔

مصنف پبلک لا کے ریسرچ سکالر ہیں اور لاہور لیڈز یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم کے استاد ہیں 

  [email protected]

2 Comments