کابل میں کیا ہورہا ہے؟

اس وقت کابل میں امریکی فوج کے پانچ ہزار جوان موجود ہیں۔ ان کا کام امریکی شہریوں، امریکی ویزا ہولڈرز اور ان افغانیوں اور ان کی فیملیز کا بحفاظت انخلا ممکن بنانا ہے جو اتحادی افواج سے کسی نہ کسی طرح جڑے رہے، کوئی مترجم تھے یا وکیل ڈاکٹر یا این جی اوز کے کارکن وغیرہ۔

امریکی پریس میں صدر بائیڈن پر سخت تنقید جاری ہے اور ان پر یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ افغانستان سے نکلنے کی انہوں نے جو حکمت عملی تیار کی تھی وہ درست نہیں تھی۔ انہیں چاہیے تھا کہ پہلے سب سویلینز کا بحفاظت انخلا کیا جاتا اور پھر افواج کو نکالا جاتا۔

دوسری طرف اشرف غنی کےناراض ساتھی جنہوں نے طالبان کے کابل پر قبضے میں اہم کردار ادا کیا ہے، طالبان سمیت مختلف سٹیک ہولڈرز سے حکومت بنانے کے لیے مذاکرات کررہے ہیں۔طالبان نے افغانستان کو اسلامی امارات قرار دے دیا ہے جہاں کا قانون اب اسلامی شریعہ ہوگا۔ ابھی تک یہ کسی کو علم نہیں اسلامی شریعہ کی تفصیلات کیا ہیں۔ وہ نظام حکومت کیسے چلائیں گے۔ حکومت کا سربراہ خلیفہ ہوگایا امیر المومنین یاصدر ۔۔۔خلیفہ یا امیر المومنین تاحیات ہوگا یا اس کی کوئی مدت مقرر کی جائے گی اورنیا خلیفہ یا امیر المومنین کیسے چنے جائیں گے وغیرہ وغیرہ۔

ذرائع کے مطابق طالبان کا ایک وفد اسلام آباد میں بھی موجود ہے ۔ ناردرن الائنس کے رہنما احمد شاہ مسعود کے بھائی بھی اسلام آباد میں موجودہیں۔پاکستانی ریاست افغانستان میں حکومت سازی کے لیے مختلف سٹیک ہولڈرز کے درمیان مذاکرات کروا رہی ہے تاکہ افغانستان میں ایک مستحکم حکومت تشکیل پا سکے۔ پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی آئی ایس آئی نےچین اور روس کے ذریعے بہرحال طالبان کے افغانستان پر قبضے کو یقینی بنایا ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ ممالک پاکستانی جرنیلوں کو کیا انعام دیتے ہیں؟ایک بات طے ہے جو بھی فائدے ملےوہ جرنیلوں کو ملنے ہیں، پاکستانی عوام اسی طرح مفلوک الحالی کی زندگی گذارنے پر مجبور ہوں گے۔آنے والے دن پاکستان کے لیے اچھے نہیں نظر آرہے۔ طالبان کے آنے سے پاکستان کے مذہبی انتہا پسندوں کی باچھیں پہلے ہی کھل رہی ہیں۔ اگر طالبان کی مضبوط حکومت بنتی ہے تو پاکستان کی سیکیورٹی ایسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی سرگرمیوں پر مزید سختیاں ہوں گی۔ پی ٹی ایم ہو یا بلوچستان میں جاری آزادی کی تحریک۔ ان پر پہلے ہی سختیاں ہورہی ہیں جن میں اضافہ ہوسکتا ہے۔

اگر طالبان کی مستحکم حکومت نہیں بنتی اور فریقین کے درمیان لڑائی جھگڑے شروع ہوتے ہیں تو اس کا اثر بھی پاکستان پر پڑے گا۔ کیونکہ پاکستانی ریاست طالبان کی سب سے بڑی سپورٹر ہے اور ان طالبان کو اگر کسی سے مار پڑی تو انہیں پناہ پاکستانی ریاست نے ہی دینی ہے۔

گو طالبان نے ابھی تک کسی سے انتقام نہ لینے اور سب کے لیے معافی کا اعلان کیا ہے لیکن یہ سب کچھ کابل تک محدود ہے جہاں وہ پوری دنیا کے کیمروں کی چکاچوند کا سامنا کر رہے ہیں۔ کابل سے باہر کیا ہورہا ہے اس کی ہلکی پھلکی ویڈیوز آرہی ہیں۔ ویسے بھی طالبان کے اتنے گروہ ہیں جو اپنی اپنی مرضی کررہے ہیں۔

اطلاعات کے مطابق افغان عوام کی ایک قلیل تعداد نے طالبان کے قبضے پر احتجاج بھی کیا ہے لیکن خدشہ یہی ہے کہ ایک نہ ایک دن اسے سختی سے کچلا جائے گا ۔

شعیب عادل

Comments are closed.