افغانستان: حکومت بنانے پر طالبان میں شدید اختلافات

طالبان کے کابل پر قبضہ کیے تین ہفتےگذر چکے ہیں لیکن ابھی تک حکومت بنانے پر کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا۔ جس کی بنیادی وجہ طالبان کے اندرونی اختلافات ہیں۔ یاد رہے کہ طالبان کے بیس سے زیادہ گرو پ ہیں جن کے درمیان اتفاق رائےپیدا نہیں ہورہا۔قبضے سے پہلے تو ایک ہی مقصد تھا کہ جہاد کیا جائے۔ اب جہاد کے بعد کیا کرنا ہے اس کا کوئی متفقہ حل نظر نہیں آرہا۔یاد رہے کہ طالبان نے اعلان کیا تھا کہ جمعے کی نماز کے بعد مُلا ہیبت اللہ افغانستان میں حکومت کے قیام کا اعلان کریں گے لیکن ایسا نہ ہو سکا۔ بظاہر دو بڑے گروپوں حقانی گروپ اور ملا برادر گروپ کے درمیان حکومت بنانے پر شدید اختلافات ہیں اور ذرائع کے مطابق پچھلے ہفتے ان کے درمیان شدید لڑائی بھی ہوئی ہے۔

واشنگٹن ڈی سی میں بین الاقوامی نشریاتی ادارے سے منسلک ایک پشتون صحافی نے بتایا ہے کہ جہاں تک لڑائی کا تعلق ہے تو یہ خبر درست ہے لیکن مُلا برادر کے زخمی ہونے پر کوئی اطلاع نہیں ۔ اس کا کہنا ہے کہ مُلا برادرزیادہ مذہبی ہیں اور وہ شریعت کا مکمل نفاذ چاہتے ہیں جبکہ سراج الدین حقانی تھوڑے سیاسی ہیں۔ وہ تمام گروپوں کو ساتھ ملا کر کثیر الاقومی حکومت بنانے کے حق میں ہیں۔صحافی کا کہنا ہے کہ طالبان کی دوسری سطح پر لیڈر شپ، باجوڑ اور دوسرے علاقوں میں بیٹھی ہے اور جب دونوں کے درمیان مذاکرات ہوتے ہیں تو دونوں گروپ جن کا تعلق میرانشاہ شوریٰ اور کوئٹہ شوریٰ سے ہے ، اپنے اپنے لوگوں کو پیغام بھیجتے ہیں اور ان کے قریبی لوگوں کا کوئی بھائی صحافی ہے تو کوئی سپاہی تو اس طرح کچھ نہ کچھ خبریں باہر آجاتی ہیں۔

صحافی کا کہنا ہے کہ قندھار اور ننگر ہار والوں کے درمیان لڑائیاں پرانی اور قبائلی بھی ہیں جس پر قابو پانا بہت مشکل ہے۔پاکستانی میڈیا اور بنیاد پرست طبقہ طالبان کی فتح پر خوشیاں تو منا رہا ہے لیکن پاکستان آرمی اور آئی ایس آئی سخت پریشان ہے۔ کیونکہ پہلے تو جہاد یا فساد برپا کرنے کے لیے لاجسٹکس سپورٹ تو دے دی ہے لیکن اب ان کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ کام تو سیاست دانوں کا ہے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ایک پشتون صحافی کو انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ ڈیورنڈ لائن ان کے نزدیک کوئی مسئلہ نہیں ہے ۔۔ لوگ جب چاہے آ جا سکتے ہیں ۔ یہ موقف پاکستان کے اس مطالبے کے برعکس ہے جس میں وہ ہمیشہ افغانستان سے مطالبہ کرتا ہے ڈیورنڈ لائن کو رسمی طور پر سرحد تسلیم کیا جائے۔۔ لیکن طالبان اس کو رسمی سرحد تسلیم کرنے تیار نہیں ہے۔۔ پاکستان کے پاس پھر اس کے علاوہ بہتر آپشن نہیں ہے کہ سراج حقانی کے گروپ کو اپنے پاس رکھے تاکہ قندہاری گروپ پر پریشر موجود رہے ۔

ذبیح اللہ قندہاری گروپ سے ہے ۔اسی طرح پاکستانی طالبان کو بھی ننگرہاری طالبان یا سراج حقانی گروپ کے ذریعے سے کنٹرول میں لانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ سراج حقانی گروپ کی جائیدادیں، فیملی ممبرز اور دیگر اثاثے یا تو اسلام آباد میں ہیں یا پھر پشاور میں جبکہ پاکستانی طالبان ایک لمبے عرصہ سے میرانشاہ شوریٰ میں نمائندگی بھی رکھتے ہیں جس کے سربراہ سراج الدین حقانی ہیں، ان کا تعلق ننگرہار گروپ سے ہے۔ جبکہ ملا برادر گروپ کی قیادت کا تعلق قندھار سے ہے جن کے روابط کوئٹہ شوریٰ سے ہیں جس کا مرکز کوئٹہ کے قریب کچلاک کا علاقہ ہے۔۔ دونوں گروپس دیوبندی نظریہ کے حامل ہیں لیکن میرانشاہ شوریٰ پر مولانا سمیع الحق مرحوم کے حقانیہ مدرسہ کے اساتذہ کا اثر ہے جبکہ کوئٹہ شوریٰ کے طالبان پر مولانا فضل الرحمان گروپ کے علما کا زیادہ اثر ہے۔۔

اس پس منظر کے بتانے کا مقصد یہ ہے کہ اگر طالبان کی حکومت قائم ہوتی بھی ہے تو ان کے درمیان طاقت کے حصول کےلیے جنگ جاری رہے گی۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل فیض حمید ننگر ہار اور قندھار گروپوں کے اس اہم مسئلے کے بارے میں کافی تشویش رکھتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں پاکستانی طالبان، داعش اور القاعدہ کے ساتھ مل سکتے ہیں۔یاد رہے کہ اس وقت داعش اور القاعدہ جو کہ پاکستانی علاقوں میں موجود تھے اب سب گروہ افغانستان میں فتح کا جشن منارہے ہیں۔

شعیب عادل

Comments are closed.