ڈاکٹر مبارک علی :ایک تنقیدی جائزہ

پائندخان خروٹی

برصغیر پاک و ہند میں عصر حاضر کے ممتاز مورخ ڈاکٹر مبارک علی پر قلم اٹھانے سے پہلے اس بات کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ میں نے زندگی میں جتنے مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے ان میں جن چند افراد کو سب سے زیادہ پڑھا ہے ان میں سے ایک ڈاکٹر مبارک علی بھی ہیں۔

ڈاکٹر صاحب کی بہت ساری کتابیں پڑھنے، اُن کو ڈائریکٹ انٹرویو کرنے اور اُن کے دیگر اینکرز کے ساتھ کیے جانے والے انٹرویوز سننے کے بعد روایات کے برعکس اپنے تنقیدی مزاج اور خلقی شعور کی وجہ سے ان کے کتابوں اور انٹرویوز کے زیر اثر رہنے کی بجائے ان پر نئے سوال اٹھانے اور ان کی شائع شدہ کتابوں میں نظرانداز گوشوں اور شخصیتوں کی نشاندہی کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ ڈاکٹر مبارک علی کے ایک قاری کی حیثیت سے جب ان کی تحریروں میں تشنگی محسوس کی یا جہاں جہاں ابہام محسوس ہوا تو اُن حوالوں سے اپنے تحفظات درجہ ذیل بیان کر رہا ہوں۔

بلاشبہ ڈاکٹر مبارک علی صرف پاکستان کے نہیں بلکہ پورے برصغیر پاک و ہند کے ممتاز ترین تاریخ نویسوں میں شمار کیے جاتے ہیں۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے اب تک ننانوے کے قریب کتابیں قلمبند کی ہیںاس کے علاوہ وہ باقاعدہ طور پر تاریخ سے متعلق ایک سہ ماہی رسالہ بھی شائع کرتے ہیں۔ گویا کئی عشروں سے ان کے تحریر اور مطالعہ کا محور و مرکز ہی تاریخ ہے۔ ان تمام تر انتھک کاوشوں کے باوجود وہ اپنے مخصوص مضمون تاریخ اور تاریخ نویسیسے متعلق اتنے طویل عرصہ تک کوئی بنیادی اصول یا نظریہپیش نہ کر سکے۔

اگر ڈاکٹر مبارک علی تاریخ بینی اور تاریخ فہمی سے متعلق کوئی منفرد اصول یا نظریہ پیش کرنے میں کامیاب ہوتے تو براعظم ایشیا اور خاص طور سے مسلم ممالک پر لگنے والا الزام ختم بھی ہو سکتا تھا کہ ان ممالک نے صدیوں میں نیچرل اور سوشل سائنسز میں کوئی نظریہ پیش نہ کیا۔

انسانی ارتقاء کے اصول کے مطابق انسان کا ماضی، حال اور مستقبل آپس میں جڑا ہوا ہوتا ہے۔ ماضی کے تجربے اور حال کی فعالیت کو جوڑ کر ہی انسان اپنے روشن مستقبل کی تعمیر کرتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر مبارک علی کی تمام تحریریں کسی مخصوص خطے کے کچھ خاص ادوار پر مشتمل ہیں جبکہ آج کے زمانے یعنی لمحہ موجود کا کوئی تذکرہ ان کی تحریروں میں نہیں ملتا جس کا نتیجہ یہ ہے کہ مصنف اور اُن کے قاری زیادہ تر ماضی کے ہی اسیر(ناستلجیا) ہو جاتے ہیں اور حال سے لاتعلقی کے باعث مسقبل کی تعمیر کا امکان مفقود ہو جاتا ہے۔

کسی بھی تاریخ نویس کو پڑھ کر اس کے زمان ومکان میں ہونے والے واقعات اور حقائق سے آگاہی حاصل ہونی چاہیے لیکن ڈاکٹر مبارک علی کی زیادہ تر تحریریں برصغیر کے حکمرانوں اور حکمران خاندانوں سے متعلق ہیں۔ وہ زمینی حقائق اور معروضی حالات سے قطعی الگ تھلگ اور کٹے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مغل اور برطانوی حکمرانوں کے قصے کہانیوں، درباری سرگرمیوں، کنیزوں اور غلاموں کی داستانوں سے ان کی کتابیں بھری پڑی ہیں لیکن اُسی دور کے اُن عوامی ہیروز اور فریڈم فائٹرز کو نظرانداز کر دیتے ہیں جنھوں نے مغلیہ حکمرانوں کے ظلم و جبر اور قبضہ گیری کے خلاف نمایاں قربانیاں دی ہیں۔ مغلیہ حکمرانوں کے ظلم و جبر اور قبضہ گیری کے خلاف اٹھنے والی پشتونخوا وطن کی روشانی تحریک جو تین نسلوں تک مسلسل وزیرستان سے لیکر ننگرهار تک مغل حکمرانوں اور جنگی سالاروں کے خلاف بھرپور مزاحمت کرتی رہی۔

بعدازاں یہی مزاحمتی سلسلہ فریڈم فائٹر ایمل خان مومند، دریا خان آفریدی اور سیف و قلم کے علمبردار خوشحال خان خٹک وغیرہ نے قومی جوش و ولولہ کے ساتھ آگے بڑھایا۔ اسی طرح مختلف خطوں میں مغل اور انگریز کے جبر و استحصال کے خلاف اٹھنے والی دیگر قوموں کی تحریکوں سے بھی وہ اکثر بےنیاز نظر آتے ہیں۔

خطے کی سطح پر پشتونخوا وطن، سرزمین بلوچستان، سندھ، سرائکستان اور پنجاب یہاں تک کے بنگا ل کی قومی تحریکوں کا بھی کوئی ذکر ڈاکٹر مبارک علی کی تحریروں میں نہیں ملتا۔ برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے صف آول کے ہیرو کاکاجی صنوبر حسین مومند سے لیکر مارکسی دانشور ایڈووکیٹ افضل خان بنگش اور شیرعلی باچا تک پشتونخوا وطن میں ایک درجن کے قریب دہقانی اور سیاسی تحریکیں چلی ہیں جو ابھی تک روایتی تاریخ نویسوں اور تعلیمی نصاب مرتب کرنے والوں کی نظروں سے اُوجھل ہے۔

اس کے علاوہ پشتونخوا وطن اور سرزمین بلوچستان مختلف تہذیبوں کا گہوارہ رہے ہیں۔ اب تک ان پر کوئی خاص توجہ نہیں دی گئی۔ واضح رہے کہ صنوبر کاکاجی اپنے باغ وبہار شخصیت و کردار، قربانیاں اور کارناموں اور بلند فکر و نظر کے حوالے سے ان تمام شخصیات پر بھاری ہیں جن کا ذکر ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی ننانوے کتابوں میں کیا ہے۔ دنیابھر میں اس امر کو تسلیم کیا جاتا ہے کہ بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے کسی بھی قوم کی مادری زبان کلیدی اہمیت رکھتی ہے۔ مادری زبان ہی سمجھ بوجھ اور تخلیق کا اہم عنصر ہے۔

پاکستان جیسے کثیر القومی اور کثیراللسانی ملک میں مادری زبانوں کو اختیار کرنے کی تحریکیں عوام میں مقبول بھی رہی ہیں جن کی ایک بڑی مثال آئینِ پاکستان میں شامل اٹھارویں ترمیم ہے لیکن ڈاکٹر مبارک علی اور ان کے ہم فکر مادری زبان کے مسئلے پر دیگر پاکستانی لیفٹ کی طرح مکمّل طور پر خاموش ہیں۔ پاکستان کے مختلف علاقوں میں پشتو، سندھی، بلوچی، پنجابی، سرائیکی اور دیگر زبانوں میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی فہرست بہت طویل ہے اور ان اقوام کی مزاحمتی اور ترقی پسند ادب و تاریخ مقدار اور معیار کے حوالے سے بھی بہت جاندار ہے۔

ترقی پسند مصنفین اور تخت لاہور کے ٹراٹسکا ئٹ کی طرح ڈاکٹر مبارک علی نے بھی اپنی کتابوں میں ہمارے قومی ہیروز کو نظرانداز کیا ہے۔ دوسری جانب ڈاکٹر مبارک علی ،مغل بادشاہ اکبر سے کئی بار اپنی عقیدت کا اظہار تحریری اور زبانی طور پر کر چکے ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے انجمن ترقی پسند مصنفین کی نظر میں صرف دو شخصیات فیض احمد فیض اور سجاد ظہیر ہیں اور یہی ترقی پسندی کا دعویٰ کرنے والے کسی پشتون، بلوچ اور سندھی وغیرہ کے اہل علم و دانش پر ایک سیمینار کے انعقاد کی زحمت بھی نہیں کرتے۔

یہی وجہ ہے کہ پورے خطے کے محکوم اقوام اور مظلوم طبقات ان کے ساتھ کوئی تعلق محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں بھی ان کی حیثیت اجنبی پودوں کی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اپنے آس پاس کی ترقی پسند اور عوام دوست شخصیات اور تحریکوں سے انکار دراصل انسانی تاریخ کے بنیادی قانون یعنی طبقاتی جدوجہد سے انکار ہے۔ ڈاکٹر مبارک علی نے بھی روایتی تاریخ نویسوں کے انداز پر برصغیر پاک وہند میں مختلف ادوار کا تذکرہ کیا ہے۔

انہوں نے مغلوں اور انگریزوں کی حکمرانی کو الگ الگ دور کے طور پر دیکھا اور انھیں مغلیہ دور اور برطانوی دور سے منسوب کیا ہے لیکن برصغیر پاک و ہند میں طویل عرصے تک حکمران رہنے والے پشتون افغان کو ڈاکٹر مبارک علی نے بھی کئی خاندانوں مثلاً غوری خاندان، لودھی خاندان، خاندان غلامان اور خلجی خاندان میں تقسیم کر کے پشتون دور کا تذکرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔ حالانکہ انگریز اور مغل کی طرح پشتون افعان کے حکمرانوں کی حکمرانی کو بھی ایک مخصوص دور یعنی پشتون سلطنت یا افغانیہ دور کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا جو درباری اور روایتی تاریخ میں نہیں ہے۔

ڈاکٹر مبارک علی نے اپنی کتابوں میں نیشنل ازم کا انتہائی منفی تاثر قائم کیا ہے۔ ان سے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ قوم اور قوميت کے حوالے سے اُنہیں اپنے موقف پر نظرثانی کرنی چاہئے کیونکہ انقلاب فرانس، بالشویک انقلاب، چائنیز انقلاب، کیوبین انقلاب، افغان سور انقلاب اور ویتنام انقلاب برپا کرنے میں ترقی پسند فرانسیسی، رشین، چائنیز، کیوبین، افغان اور ویت نام کی قوم پرستی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ مارکسی نقطہ نظر سے محکوم اقوام، مظلوم طبقات اور مزدور کسان کے حقوق واختیارات کی جنگ کو اپنی جنگ قرار دے کر اپنے حصے کا کردار ادا کرنا تمام اہل فکر و قلم کا فریضہ ہے۔

واضح رہے کہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ سوشلسٹ موڈ آف پروڈکشن سے انسانیت کو روشناس کرانے کا اعزاز بھی سوویت یونین کے انقلابی قائدین کو جاتا ہے۔ انسانی تاریخ زرعی انقلاب، صنعتی انقلاب اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلاب کی تین مختلف لہروں سے گزر کر آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کی چوتھی لہر میں داخل ہو چکی ہے لیکن دیگر مصنفین اور دانشوروں کی طرح ڈاکٹر مبارک علی بھی نئی ٹیکنالوجی اور نئے عہد کے معاشی و سیاسی نظریات سے بےبہرہ نظر آتے ہیں۔

مارکسی نقطہ نظر سے زرعی آلات انسانی فکر کی نشوونما پر اثرانداز ہوتے ہیں جبکہ صنعتی ترقی یعنی شہری زندگی نے انسانی رویوں اور افکار میں اپنے طور پر بدلاو لایا۔ گویا کوئی بھی تخلیق، فن، تاريخ اور ضابطہ اخلاق وغیرہ ذرائع پیداوار اور پیداواری رشتوں سے آزاد اور الگ الگ تھلگ نہیں ہوتے۔ سردست پوری انسانیت مذہبی جنونیت، روحانی سلطنت اور ثقافتی یکسانیت سے نکل کر مشترکہ انسانی سویلائزیشنکی جانب رواں دواں ہے۔ آرٹیفیشل انٹیلیجنس اور روبوٹک ٹیکنالوجی کی نئی اشیاء کے اثرات بھی انسانی رویوں، مشترکہ تہذیب، عالمی ادب، تاريخ اور ہر شعبہ زندگی پر مرتب ہو رہے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب سمیت تمام ترقی پسند مفکرین کو رونما ہونے والی معاشی اور سیاسی تبدیلیوں کو جاننا، سمجھنا اور پرکھنا پڑے گا۔ ڈاکٹر مبارک علی کی بعض کتابیں مثلاً تاریخ اور عورت، تاريخ اور مذہبی تحریکیں، علماء اور سیاستاور یورپ کا عروجوغیرہ جیسی کتابوں میں ڈاکٹر صاحب نے غیرمعمولی جرآت کا مظاہرہ کیا ہے۔ انہوں نے برملا تاریخ میں تصوف بالخصوص شریعت کے نام سے منسوب تحریکوں کے سرکردہ افراد کی سائنس دشمنی اور مذہب کے نام پر ظلم و زیادتی کرنے والوں کو معاف نہیں کیا۔

بہرحال وقت آپہنچا ہے کہ ہم سب کو مذہب و قوم سے بالاتر ہوکر دہشت وحشت پر مبنی جنونی ذہنیتکے خاتمے کیلئے بھرپور کردار ادا کریں تاکہ مساوات پر مبنی معاشی انقلاب کے خواب کی تعبیر ہو سکیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی اور مستقبل ایک دوسرے سے مربوط ہونے کے باوجود انسان اپنے حال یعنی لمحہ موجود میں ہی زندگی گزارتا ہے۔ لہٰذا عہد حاضر کی تمام استحصالی اور سامراجی قوتوں کے خلاف آواز بلند کرنا اور جنونیت کے خونخوار چہروں کو بےنقاب کرنا ہر ذی شعور شخص کا انسانی فریضہ ہے کیونکہ تاریخ لکھنے والوں کو تاریخ بنانے کے عمل بھی شامل ہونا اشد ضروری ہے۔

One Comment