طالبان کی عبوری حکومت کا اعلان: امریکا کی تشویش میں اضافہ

امریکا نے طالبان کی عبوری حکومت میں بعض افراد کی شمولیت پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ واشنگٹن کو خدشات لاحق ہیں کہ چین طالبان کے ساتھ کسی نا کسی صورت میں تعاون کی پیشکش کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش کر سکتا ہے۔

امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چین کو طالبان کے ساتھ بعض اہم مسائل کا سامنا ہے اس کے باوجود وہ طالبان کے ساتھ کچھ انتظام کرنے کی کوشش کرے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے سات ستمبر منگل کی شام وائٹ ہاؤس میں صحافیوں سے بات چيت کے دوران کہا کہ چین کو طالبان کے ساتھ بعض اہم اور حقیقی نوعیت کے مسائل کا سامنا ہے اس لیے وہ ضرور ایسی کوششیں کرے گا جس سے طالبان کے ساتھ کام کرنے کا کوئی طریقہ کار طے کیا جا سکے۔

افغانستان میں طالبان کی نئی حکومت کے قیام کے بعد امریکی صدر کا یہ پہلا بیان ہے۔

امریکا نے طالبان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس نے فی الوقت افغانستان کی اربوں ڈالر کی وہ رقوم بھی جاری نہ کرنے کا اعلان کیا ہے جو امریکی بینکوں میں جمع ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ پہلے دیکھنا چاہتا ہے کہ طالبان اپنے کیے گئے وعدے پورے کرتے ہیں یا نہیں۔

اس حوالے سے جب  جو بائیڈن سے یہ سوال کیا گیا کہ کیا اس مشکل وقت میں چين طالبان کو مالی مدد فراہم کر سکتا ہے تو انہوں نے کہا، ’’چین کو طالبان کے ساتھ حقیقی مسائل در پیش ہیں۔ لہٰذا وہ طالبان کے ساتھ کچھ  ایسا بندوبست کرنے کی کوشش کرے گا جیسا کہ پاکستان، روس  اورایران کرتے ہیں۔ وہ سب یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اب انہیں کیا کرنا چاہیے‘‘۔

اس دوران امریکی وزارت خارجہ نے طالبان کی نئی حکومت  کے بارے میں کہا کہ ابھی وہ اس کا تجزیہ کر رہی ہے۔ تاہم ایک بیان میں کابینہ میں بعض ایسے افراد کی شمولیت پر تشویش کا بھی اظہار کیا گیا جو ماضی میں مبینہ تشدد پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں امریکی تفتیشی ادارے ایف بی آئی کو مطلوب رہے ہیں۔

بیان میں کہا گيا،’’ ہم نے طالبان کی طرف سے اعلان کردہ فہرست میں شامل ناموں کا نوٹس لیا ہے، خاص طور پر ان  افراد کے بارے میں جو طالبان کے رکن ہیں یا ان کے قریبی ساتھیوں میں سے ہیں۔ اس فہرست میں تاہم کوئی خاتون شامل نہیں ہیں۔ ہمیں کچھ افراد کی وابستگیوں اور ان کے ٹریک ریکارڈ کے بارے میں بھی تشویش ہے‘‘۔

 امریکی وزارت خارجہ کا مزید کہنا تھا،’’ ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان نے اسے اپنی عبوری کابینہ کے طور پر پیش کیا ہے۔ تاہم، ہم طالبان کے بارے میں ان  کے عمل کی بنیاد پر فیصلہ کریں گے، قول پرنہیں۔ ہم نے اپنی توقعات واضح کر دی ہیں کہ افغان عوام ایک جامع حکومت کے مستحق ہیں۔‘‘

اس موقع پر امریکا نے ایک بار پھر اس بات پر زور دیا کہ جو افراد افغانستان سے نکلنا چاہتے ہیں انہیں طالبان نے محفوظ راستہ فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا اور انہیں اپنے اس وعدے کی پاسداری کرنا ہو گی۔

بیان میں مزید کہا گیا،’’ ہم اپنی اس واضح توقع کا بھی اعادہ کرتے ہیں کہ طالبان اس بات کو یقینی بنائیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کو دھمکی دینے کے لیے استعمال نہ ہو اور افغان عوام کی مدد کے لیے انسانی امداد کی رسائی کی اجازت دی جائے‘‘۔

امریکا نے اپنے ایک اہم فیصلے میں افغانستان کی اربوں ڈالر کی رقوم کو منجمد کر دیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ پہلے یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ طالبان کس طرز کی حکومت قائم کرتے ہیں اور انسانی حقوق سے متعلق ان کا رویہ کیسا رہتا ہے۔ اسی کی بنیاد پر ان رقوم کو جاری کرنے کا فیصلہ کیا جائے گا۔

تاہم بعض ماہرین کے مطابق اس فیصلے سے امریکا طالبان سے مزید دورہو سکتا ہے کیونکہ چین اور روس طالبان کی اس ضرورت کو فوری طور پر پورا کرنے کے لیے تیار ہوں گے اور اس طرح خطے میں ان کا اثر و رسوخ مزید بڑھے گا۔ 

اس دوران وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین پاسکی نے ایک بیان میں کہا کہ امریکا فی الوقت طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں کرے گا۔ امریکا اور اس کے دیگر مغربی ممالک کے اتحادیوں کا موقف ہے کہ طالبان کے ساتھ رابطے کے سوا تو کوئی چارہ نہیں ہے اور ان سے کئی امور پر بات چیت بھی ہوتی رہے گی تاہم فی الوقت ان کی حکومت کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

منگل کے روز طالبان نے کابل میں نئی عبوری حکومت کے قیام کا اعلان کیا تھا جس کے سربراہ ملا عمر کے قریبی ساتھی ملا حسن اخوند ہیں جبکہ طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو اس عبوری حکومت کے نائب سربراہ کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔

اس کے علاوہ حقانی نیٹ ورک کے بانی کے بیٹے سراج الدین حقانی کو ملک کا نیا وزیر داخلہ بنایا گیا ہے۔ حقانی نیٹ ورک کو امریکا نے ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے اور شاید اسی پر امریکا کو تشویش  ہے۔ نئی افغان حکومت میں وزیر دفاع کے طور پر ملا محمد یعقوب کا انتخاب کیا گیا ہے، جو طالبان تحریک کے بانی رہنما ملا محمد عمر کے بیٹے ہیں جبکہ قائم مقام وزیر خارجہ ملا امیر خان متقی ہوں گے۔

dw.com/urdu

Comments are closed.