افغانستان: طالبان سٹریٹ آرٹ اور تصاویر کومٹا رہے ہیں

افغانستان کے ایک آرٹ ایکٹیوسٹ عمید شریفی نے سقوط کابل کے بعد انتہا پسند طالبان کی جانب سے تمام تراسٹریٹ آرٹ پر سفیدی پھیر کرانہیں پروپیگنڈا کے لیے استعمال کرنے کے عمل کو ماضی کی خوفناک یادیں تازہ کرنے کا سبب قرار دیا ہے۔

افغانستان کے ایک ایسے آرٹسٹ جنہوں نے جنگ، تشدد، آگ، خون اور بربادی کا منظر پیش کرنے والی کابل کی سڑکوں، گلیوں اور دیواروں کو زندگی اور خوش امیدی کے رنگوں سے سجانے میں برسوں بتائے، ان کی تمام محنت پر پانی پھیرتے ہوئے طالبان نے انہیں اپنے پروپیگنڈا نعروں سے رنگ دیا ہے۔ مسلم انتہا پسندوں کے گروپ طالبان کے افغان دارالحکومت کابل پر قبضے کے چند ہفتوں کے اندر کابل اور گرد و نواح کی شکل ہی تبدیل ہو چُکی ہے۔

طالبان نے کابل کا کنٹرول سنبھالتے ہی شہر کی دیواروں، سڑکوں اور گلی کوچوں میں اپنے کارکنوں کو تعینات کر دیا جنہوں نے تیزی سے عمید شریفی کے آرٹ پر سفیدی پھیرنے اور ان کے نقوش مٹا کر ان پر طالبان کے پروپیگنڈا پر مشتمل نعروں کو ثبت کرنا شروع کر دیا۔ اس بارے میں پیر کو خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو متحدہ عرب امارت سے ٹیلی فون پر انٹرویو دیتے ہوئے شریفی نے کہا کہ انہیں طالبان کے کارکنوں کی طرف سے تمام آرٹ پر سفیدی پھیرتا دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ افغانستان میں انتہاپسندی کے فروغ اور کٹر نظریات کو دوبارہ نافذ کرنے کا سلسلہ شروع ہو چُکا ہے۔ ان کے بقول،اس سے میرے ذہن میں جو تصویر آئی وہ یہ تھی کہ طالبان کابل پر کفن ڈال رہے ہیں‘‘۔

سنہ2014 ء میں افغانستان میں آرٹ لورڈز‘ نامی ایک تحریک شروع ہوئی تھی جس میں شریفی اور ان کے دیگر فنکار ساتھیوں سمیت رضاکاروں نے مل کر افغان معاشرے میں ایک سماجی تبدیلی کا بیڑا اُٹھایا تھا جس کا مقصد فن اور فنکاری کی مدد سے معاشرے کی سخت گیر اور انتہا پسندانہ شکل کو تبدیل کر کے اسے مثبت اور امید افزا رنگوں سے تبدیل کرنا تھا۔ اس پیش قدمی کے تحت افغانستان بھر میں دو ہزار دو سو رنگ برنگی تصاویر والی دیواریں بنائی گئی تھیں۔

اب جبکہ طالبان نے کابل اور دیگر علاقوں پر اپنا مکمل کنٹرول حاصل کر لیا ہے، طالبان عناصر کی طرف سے آرٹ لورڈز‘ کے تمام فن پاروں کو مٹانے، انہیں تباہ کرنے کا کام شروع ہو چُکا ہے، تب بھی شریفی نے کہا ہے کہ وہ اپنی مہم جاری رکھیں گے۔ 34 سالہ آرٹ ایکٹیوسٹ عمید شریفی نے کہا،ہم کبھی خاموش نہیں رہیں گے۔ ہم اس امر کو یقینی بنائیں گے کہ طالبان شرمندہ ہوں اور دنیا ہماری سُنے۔‘‘

جن دیواروں پر بنے نقوش  طالبان نے مٹا دیے ہیں ان میں سے ایک پر افغانستان کے لیے امریکا کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زاد اور طالبان کے شریک بانی عبدالغنی برادر کو افغانستان سے امریکی فوجی انخلا کی 2020 ء کی ڈیل پر دستخط کے بعد مصافحہ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔

عمید شریفی آرٹ لورڈز‘ کے شریک بانی ہیں۔ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے آرٹ یا فن کو امن ، سماجی انصاف اور احتساب کے لیے مہم کا ذریعہ بنایا تھا۔ یہ فنکار اکثر و بیشتر افغانستان کے طاقتور عناصر، جن میں وار لارڈز بھی شامل ہیں اور دیگر مبنیہ بدعنوان حکومتی اہلکاروں کے ایسے خاکے بناتے تھے جو ان معروف شخصیات کے لیے شرمندگی کا سبب بنتے۔ تاہم ان کے فن کے ذریعے افغانستان کے ہیروز کو خراج عقیدت بھی پیش کیا گیا اور تشدد کی بجائے مکالمت اور خواتین کے حقوق کا مطالبہ بھی کیا جاتا رہا ہے۔ اپنی ان سرگرمیوں کی وجہ سے ان آرٹ لورڈز‘ کو جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں اور انتہا پسند مسلمانوں نے انہیں کافر تک قرار دیا۔ اس کے باوجود یہ فنکاروں اور ایکٹیوسٹس کبھی نادم نہ ہوئے اور آخر وقت تک انہوں نے اپنی سرگرمیاں جاری رکھیں۔

پندرہ اگست کو عمید شریفی اور ان کے پانچ ساتھی کابل کی ایک سرکاری عمارت پر کام کرنے گئے اور وہاں کی بیرونی دیوار پر کام کر رہے تھے کہ چند گھنٹوں کے اندر انہوں نے سرکاری دفاتر سے بہت سے افراد کو گھبرائے ہوئے باہر نکلتے دیکھا۔ فوراً ہی انہوں نے آرٹ لارڈز گیلری‘ میں واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ شریفی کے بقول،تمام سڑکیں بند تھیں۔ ہر طرف سے پولیس اور فوج آ رہی تھی، ہر کوئی اپنی گاڑی چھوڑ کر بھاگ رہا تھا۔‘‘ شریفی اور ان کا گروپ جب بالآخر آرٹ گیلری میں پہنچا تو انہیں سقوط کابل کی خبر ملی۔‘‘

عمید شریفی 1996 ء میں 10 برس کے تھے جب انتہا پسند طالبان پہلی بار اقتدار میں آئے تھے۔ شریفی نے طالبان کی سخت گیر حکومت کی بہیمانہ حکمرانی دیکھی تھی۔ پھر پانچ برس بعد امریکی قیادت والی افواج نے طالبان کا تختہ اُلٹا اور ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس مرتبہ کابل میں طالبان کے کنٹرول کے بارے میں شریفی کہتے ہیں،میں توقع کرتا ہوں کہ بہت کچھ نہیں بدلا ہے۔‘‘ شریفی کی طرح بہت سے دیگر افغان باشندے موجودہ طالبان حکمرانوں کی طرف سے تبدیلیوں کے دعوؤں کو شکوک و شبے کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔

ان میں سے بہت ہی کم باشندے طالبان دور میں سر عام پھانسی، تفریح پر مکمل پابندیوں بشمول ٹیلی وژن اور کیسٹ پلیئرز کے استعمال پر سخت ترین پابندیوں کو بھول پائے ہیں۔ شریفی نے خبررساں ایجنسی اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے کہا،مجھے کابل کے ایک فٹ بال اسٹیڈیم میں کھلے عام سزائیں، جن میں سر قلم کرنے اور مختلف جرائم کی سزا کے طور پر جسمانی اعضا کا کاٹا جانا بہت واضح طریقے سے یاد ہے۔‘‘

عمید شریفی کا مزید کہنا تھا،جب میں اپنی سائیکل پر سوار ہو کر مرکزی بازار جایا کرتا تھا، مجھے رستے میں بہت سارے ٹیلی وژن سیٹس، کیسٹ ریکارڈرز اور تمام ٹیپس وغیرہ ٹوٹے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔ طالبان کے سابقہ دور میں کوئی مقامی میڈیا نہیں تھا اور انسانوں اور جانوروں کی تصاویر پر پابندی عائد تھی ‘‘۔

افغان دارالحکومت پر طالبان کے قبضے کے ساتھ ہی ہزاروں افغان باشندوں نے کابل ہوائی اڈے پہنچنا شروع کر دیا، وہ اپنی اپنی زندگیوں کو لاحق خطرات سے خوفزدہ تھے۔ فرار کی کوشش کرنے والوں میں عمید شریفی جیسے متعدد فنکار بھی شامل ہیں۔ شریفی کے بقول،فرار یا وطن چھوڑنا ایک بہت ہی مشکل انتخاب ہوتا ہے۔ میری دعا ہے کہ کبھی کسی کو ان حالات سے گزرنا نہ پڑے جن سے ہم گزرے ہیں۔‘‘

انہوں نے مزید کہا،افغانستان میرا گھرہے یہ میری پہچان ہے۔ میں اپنی تمام جڑیں یہاں سے اکھاڑ کر کسی دوسرے ملک میں جاکر انہیں اگانے اور نئے سرے سے خود کو آباد نہیں کر سکتا۔‘‘  شریفی کی بنیادی تشویش اور خوف موت نہیں ہے کیونکہ وہ برسوں سے موت کی دھمکیوں کے ساتھ زندگی گزار چُکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کے لیے سب سے زیادہ خوفناک بات یہ ہے کہ اُن کی کوئی آواز باقی نہیں رہ پائے گی۔

dw.com/urdu

Comments are closed.