سائنس وفلسفہ میں اسباب اور نتائج

 پائندخان خروٹی

ہر ذی شعور شخص اس بات پر متفق ہے کہ دنیا میں کوئی واقعہ بغیر کسی وجہ کے ظہور پذیر نہیں ہوتا۔ بالفاظ دیگر کوئی عمل بےوجہ نہیں ہوتا۔ ہاں یہ ہو سکتا ہے کہ کسی شخص سے سرزد ہونے والا فعل یا کسی واقعہ کی ظہور پذیری کے پیچھے اصل وجہ کا آپ کو ادراک نہ ہو مگر وجہ یا وجوہات ضرور ہوتی ہیں۔ جس طرح مختلف اثرات اور نتائج کی تہہ میں کوئی وجہ کارفرما ہوتی ہے بالکل اسی طرح مختلف اثرات ایک وجہ کو معروض وجود میں لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

فلسفہ کی دنیا میں علت و معلول (کاز اینڈ ایفیکٹ )کے سسٹم کا درست ادراک ہی نہ صرف ماضی، حال اور مستقبل کے تسلسل کو برقرار رکھتا ہے بلکہ انسان، سماج اور کائنات کے درمیان نظم و ربط کو سمجھنے اور سمجھانے میں فکری رہنمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ فلسفہ میں علت اور معلول کے نظام کی تفصیل میں جانے سے قبل یہ ضروری ہے کہ قارئین کو مادہ اور اس کے بنیادی قوانین سے متعلق شعور و آگہی حاصل ہو۔ یہ بات بہت واضح ہے کہ ہر وہ شے جو جگہ گھیرتی ہو اور وزن رکھتی ہو مادے کے زمرے میں آتی ہے۔ مادے کی تین حالتیں ٹھوس، مائع اور گیس کے بارے ہر ذی فہیم شخص جانتا ہے مگر مادے کی چوتھی حالت پلازمہ ہے جو آگ اور روشنی کی شکل میں پایا جاتا ہے۔

حرکت کے قوانین کے مطابق مادے کو گرم اور ٹھنڈا کرنے کی وجہ سے وہ ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کیا جاسکتا ہے مگر مادہ کو تخلیق یا فناء نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ مادے کی مختلف حالتوں کو بیان کرتے وقت یہ فیصلہ کرنا آسان نہیں ہے کہ کیا جیلی، گاڑھا مائع ہے یا لچکدار ٹھوس۔۔۔۔۔؟ فلسفہ میں اسباب اور نتائج کو ذہن نشین کرانے اور مادہ کو فلسفیانہ انداز میں سمجھنے اور پرکھنے کے حوالے سے یونان کے فلاسفر ارسطو کے علل اربعہ کا قائدانہ کردار ہے۔ کسی چیز کو تعمیر سے تکمیل کے مرحلے تک پہنچانے کیلئے چار عناصر کی موجودگی نہایت ضروری ہے جس کو فلسفہ اور منطق کی دنیا میں ارسطو کے علل اربعہ بھی کہتے ہیں۔

سب سے پہلے ایک معمار ہوتا ہے جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں علت فاعلیہ کہا جاتا ہے۔ وہ معمار کوئی چیز بنانے سے پہلے اپنے ذہن میں کوئی نقشہ یا ڈیزائن تیار کرتا ہے۔ جس کو ارسطو نے علت صوریہ کا نام دیا ہے۔ اُس چیز کو بنانے کیلئے مادی سامان کا ہونا ضروری ہے جو علت مادیہ کے نام سے منسوب ہے اور اُس چیز کو بنانے کے پیچھے بنانے والے کا ایک مقصد بھی ہوتا ہے جو علت غائیہ کہلاتا ہے۔یونان کے فلاسفر ارسطو کے مندرجہ بالا چار وجوہات کی وضاحت کیلئے مصور اور اس کی مصوری کی مثال بھی دی جاسکتی ہے۔

کاز اینڈ ایفیکٹ کے تناظر میں انسان اور انسانی زندگی کی وضاحت اسطرح کی جاسکتی ہے کہ انسان کے ڈی این اے کو میٹریل کاز، وجود کی شکل کو فارمل کاز، انسان کے والدین کو ایفیشنٹ کاز اور زندگی کے مقصد کے تعین کو فائنل کاز سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ کاز اینڈ ایفیکٹ کے نظام کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان تقدیر کے طے شدہ مفروضوں سے چھٹکارا پا لیتا ہے اور اپنی خوش بختی اور بدبختی کو انسانی اعمال و افعال سے مشروط کر لیتا ہے جسکے نتیجے میں پوشیدہ صلاحیت سے سچائی تک مزل اور منزل کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔

جس طرح ہر تخلیق کا اپنا ایک تخلیقار ہوتا ہے اسطرح ہر ڈیزائن کا اپنا ایک ڈیزائنر بھی ہوتا ہے۔ فلسفہ کی اصطلاح میں تخلیق یا ڈیزائن کو معلول/مسبب (کاز) جبکہ تخلیق کار یا ڈیزائنر کو علت/سبب (معلول) کہا جاتا ہے۔ فلسفیانہ اور منطقی مکالمہ اور مباحثہ میں معلول سے علت اور علت سے اسی کا معلول دریافت کرنے کے معاملات زیر بحث لائے جاتے ہیں۔ علمی مکالمہ کے دران دلیل کے مقابلے میں نئی دلیل قائم کرنے اور غور و فکر سے نئے عقلی اصول وضع کرنے میں مدد و رہنمائی فراہم ہوتی ہے۔

ویسے تو فلسفہ کی ہر بات نہ صرف گہری اور مشکل ہوتی ہے بلکہ عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر بھی ہوتی ہے مگر فلسفہ میں بات اُس وقت زیادہ گنجلک اور پیچیدہ بن جاتی ہے جب کوئی چیز بیک وقت علت اور معلول دونوں بن جائے۔ اسطرح علم ودانش کے سفر میں علت کی علت تلاش کرتے وقت تمام آئیڈلسٹ اور میٹرلسٹ اس موقع پر یہاں آگے بڑھنے کی بجائے یہاں ڈیرے ڈالنے پر راضی ہو جاتے ہیں۔ کسی چیز کی حقیقت ماننے کے واسطے اس استدلال پر سب کو ہم فکر اور ہم کلام بنانا آسان ہے کہ مادہ کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فنا کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اس کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

اس ضمن میں فلسفہ اور سائنس کی دنیا میں علت (سبب) اور معلول (مسبب) کے درمیان امتیاز کرنے اور ان کا باہمی ربط کا صحیح ادراک حاصل کرنے کا عمل نہایت پیچیدہ ہوتا ہے۔ مثلاً جب یہ کہا جاتا ہے کہ ہر تخلیق کا ایک خالق ہوتا ہے۔ یہاں تک تو بات سمجھ میں آجاتی ہے لیکن انسانی ذہن میں اسی سوال سے ایک دوسرا نیا سوال ابھرتا ہے کہ جب ہر معلول کی ایک علت ہے تو خود علت کی علت کیا ہے۔۔۔۔؟ میں آج آئیڈیلسٹ کی بجائے یہ سوال میٹیریلسٹ سے پوچھنے کی جسارت کرتا ہوں کہ اگر ہر چیز مادے سے پیدا ہوتی ہے تو مادہ بذات خود کب اور کس نے پیدا کیا؟ اس سوال کے جواب کی مزید وضاحت اپنے قارئین پر چھوڑ دیتا ہوں۔

اب میں آتا ہوں اپنے پہلے والے سوال کی جانب کہ لکڑی بہ یک وقت علت بھی ہے اور معلول بھی۔ لکڑی میں مادہ کی اور شکلیں پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن خود دوسری چیزوں کی پیداوار ہے۔ بالفاظ دیگر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہر چیز بذات خود علت بھی ہے اور معلول بھی، یعنی لکڑی اگر آگ کی علت ہے تو وہ مٹی، پانی، کاربن ڈائی آکسائیڈ اور دیگر معدینات کا معلول بھی ہے کیونکہ لکڑی بذات خود مٹی ، پانی اور دیگر معدینات سے پیدا ہوئی ہے۔ اور اسی طرح آگ اگر ایک وقت میں معلول ہے تو وہ علت بھی ہے کیونکہ لکڑی آگ پیدا کرتی ہے جو توانائی اور حرارت فراہم کرتی ہے۔

لہٰذا ثابت ہوا کہ مادہ کو نہ پیدا کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی فنا کیا جاسکتا ہے البتہ اس کو ایک حالت سے دوسری حالت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ارتقاء اور ترقی کا سفر انسانی ضروریات کے مطابق آگے بڑھتا ہے اور اسطرح آگے بڑھتا رہے گا۔ نئے سے نئے اسباب اور نتائج سامنے آتے رہیں گے۔ کسی ایک سبب یا نتیجہ پر رک جانا یا اسے حرف آخر قرار دینا علم کے بنیادی اصولوں کے منافی ہوگا۔ اسی لیے مفکر اعظم کارل مارکس نے اس بات کی نشاندہی کی کہ انسان کے تمام عمل، واقعات اور تبدیلیاں ضروریات کے تحت ہوتی ہیں جس میں اسباب اور نتائج کا راز پوشیدہ ہوتا ہے۔

Comments are closed.