کیجریوال: پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا


ظفر آغا

مسلم ووٹر اور سیکولر ہندو ووٹر کو اروند کیجریوال جیسوں سے ہوشیار رہنا چاہیے کیونکہ بدعنوانی مٹاؤ تحریک دراصل ملک سے کانگریس مٹاؤ اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بناؤ پروجیکٹ کا حصہ ہوتی ہے۔

جس بات کی ابھی حال تک پردہ داری تھی، آخر وہ بات منظر عام پر آ ہی گئی۔ پردہ بھی خود بنفس نفیس اروند کیجریوال نے ہی اٹھا دیا۔ پچھلے ہفتے دہلی کے وزیر اعلیٰ نے دہلی میں ایودھیا کے رام مندر کی نقل تیار کرائی اور اس میں دیوالی کے روز شام کو پوجا ارچنا کی، جس کی حکومت دہلی کی جانب سے خوب تشہیر کی گئی۔ دیوالی کی صبح تمام اخباروں میں حکومت کی جانب سے اس پوجا کے اشتہار شائع ہوئے۔ پھر شام کو بشمول اپنی پوری کابینہ کیجریوال نے اس مندر میں پوجا کی جس کو تمام ٹی وی چینلوں نے لائیو نشر کیا۔

وزیر اعلیٰ کا پوجا کرنا ان کا ذاتی معاملہ ہے اور اس بات پر کسی کو اعتراض نہیں ہو سکتا لیکن اس پوجا کو سرکاری طور پر کیا جانا اور اس میں تمام وزرائے دہلی کی شرکت یقیناً قابل اعتراض ہے۔ کیونکہ ہندوستان ابھی تک آئینی طور پر ہندو راشٹر نہیں بلکہ ایک سیکولر ملک ہے۔ مگر کیجریوال نے آئین کی توہین کرتے ہوئے دہلی سرکار کو اس پوجا میں شامل کیا۔ آخر کیجریوال آئین کی توہین کیوں کر رہے تھے! آخر ان کا مقصد کیا تھا!۔

دراصل کیجریوال کی دیوالی پوجا کوئی مذہبی یا عقیدے سے تعلق رکھنے والا عمل نہیں تھا، بلکہ یہ ایک سیاسی عمل تھا۔ کیجریوال دیوالی پوجا کے ذریعہ یہ سیاسی اعلان کر رہے تھے کہ وہ اب ہندوتوا سیاست کی بی ٹیم نہیں بلکہ پوری طرح ہندوتوا نظریہ میں یقین رکھتے ہیں اور آر ایس ایس کی طرح اس ملک کو ’ہندو راشٹر‘ بنانا چاہتے ہیں۔ وہ دراصل نریندر مودی کی نقل کر رہے تھے جو اسی روز اتراکھنڈ کے کیدارناتھ مندر میں پوجا کر رہے تھے۔

صرف اتنا ہی نہیں، دیوالی کے ایک روز بعد دہلی سے ملے ہوئے گروگرام علاقے میں بھی تین جگہوں پر حکومت ہریانہ نے جمعہ کی نماز پر پابندی لگا دی۔ اس میں ایک جگہ پر گووردھن پوجا ہوئی جس میں کیجریوال کی عام آدمی پارٹی سے جڑے رہ چکے بدنام زمانہ کپل مشرا نے بھی شرکت کی۔ یعنی نماز روک کر اس مقام پر پوجا کرانے میں بھی کیجریوال بی جے پی کے ساتھ ساتھ تھے اور اس طرح وہ خود کو مودی کی طرح کا ہندوتوا سپاہی بتانے کا اشارہ کر رہے تھے۔

سچ تو یہ ہے کہ کیجریوال شروع سے ہی آر ایس ایس کے ایک مہرے ہیں اور سَنگھ کے لیے کارگر رہے ہیں۔ کیجریوال کا عروج ہندوستانی سیاست میں منموہن سنگھ حکومت کے خلاف انّا تحریک کے ساتھ سنہ 2012 میں ہوا تھا۔ وہ تحریک دراصل کرپشن کے نام پر منموہن حکومت کو بدنام کر نریندر مودی کو اقتدار میں لانے کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے آر ایس ایس کی ایما پر چلائی گئی تھی۔ کیجریوال جن کو اس وقت تک کوئی جانتا بھی نہیں تھا، اس تحریک کے ذریعہ ہندوستان سے کرپشن مٹانے کے ایک سپاہی کے طور پر ابھر کر سامنے آئے اور جلد ہی انھوں نے خود عام آدمی پارٹی قائم کر لی اور سنہ 2016 میں دہلی کے وزیر اعلیٰ بن بیٹھے۔ سیاست اور اقتدار میں آنے کے بعد سے کیجریوال کی بدعنوانی مٹاؤ کیمپین آہستہ آہستہ بالکل ختم ہو گئی۔ دہلی سے بدعنوانی چاہے ختم ہوئی ہو یا نہیں، ہاں کیجریوال نے دہلی سے کانگریس کو ضرور مٹا دیا۔ وہ کانگریس پارٹی جو دہلی پر قابض تھی، کیجریوال نے اسی دہلی سے کانگریس کا نام و نشان مٹا دیا۔

اروند کیجریوال سَنگھ اور مودی کے ’کانگریس مُکت بھارت‘ سیاسی پروجیکٹ کے ایک اہم مہرے ہیں جن کے ذریعہ صاف ستھری سیاست کے نام پر سَنگھ عام آدمی پارٹی کو مختلف ریاستوں میں کانگریس کے نعم البدل کے طور پر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ سَنگھ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ اگر کسی چناؤ میں اصل ہندوتوا پارٹی بی جے پی پِٹ جائے تو اس کی جگہ عام آدمی جیسی دوسری ہندوتوا پارٹی اقتدار میں آ جائے اور کانگریس اقتدار میں نہ آنے پائے۔ اس طرح ملک میں ’کانگریس مُکت بھارت‘ پروجیکٹ کامیاب ہو جائے۔ لیکن یہ پروجیکٹ تب ہی کامیاب ہو سکتا ہے جب عام آدمی پارٹی کو دہلی کی طرح دوسری ریاستوں میں مسلم اور لبرل ہندوؤں کا ایک بڑا طبقہ بھی ووٹ دے۔ اس کے لیے سَنگھ کانگریس کو بدنام کرنے کے لیے انّا ہزارے تحریک جیسی بدعنوانی مٹاؤ تحریک کھڑی کرتا ہے، جس کا مقصد بدعنوانی مٹاؤ نہیں، بلکہ کانگریس مٹاؤ ہوتا ہے۔ سَنگھ کا یہ کھیل سنہ 1975 سے اب تک جاری ہے۔

سنہ 1975 تک اس ملک میں اندرا گاندھی کا ڈنکا بج رہا تھا۔ بلکہ پاکستان کے دو ٹکڑے کرنے والی اندرا گاندھی سے شروع میں سَنگھ بھی خوش ہی رہا ہوگا۔ بنگلہ دیش کے قیام کے بعد اندرا گاندھی نے سنہ 1972 میں جو پارلیمانی اور ریاستی چناؤ کرائے، اس میں کانگریس پارٹی کو ہر جگہ زبردست کامیابی حاصل ہوئی۔ لیکن سَنگھ کے نظریہ کے مطابق اندرا گاندھی سے ایک غلطی ہو گئی۔ وہ غلطی یہ تھی کہ ان چناؤ کے بعد انھوں نے تین ریاستوں آسام، بہار اور راجستھان میں ترتیب وار انورا تیمور، عبدالغفور اور برکت اللہ چوہان جیسے تین مسلمانوں کو ریاست کا وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا۔

ظاہر ہے کہ اندرا گاندھی کے اس عمل سے سَنگھ کے سینے پر سانپ لوٹ گیا۔ اور بس سنہ 1974 میں بہار میں عبدالغفور کے خلاف اور گجرات میں کانگریسی وزیر اعلیٰ چمن بھائی پٹیل کے خلاف بدعنوانی کے الزام کی آڑ میں زبردست طلبا کا احتجاج شروع ہوا۔ بہار میں جلد ہی اس تحریک کی عنان جے پرکاش نے سنبھال لی اور جے پی تحریک جلد ہی تمام ہندی بولی جانے والی ریاستوں میں چھا گئی۔ سنہ 1975 میں بدعنوانی تحریک نے اس وقت نیا روپ لیا جب اندرا گاندھی کو الٰہ آباد ہائی کورٹ نے بطور ایم پی برطرف کر دیا۔ اندرا گاندھی گھبرا گئیں اور ملک میں ایمرجنسی نافذ کر دی جو غلطی تھی۔ آخر سنہ 1979 میں وہ اقتدار سے باہر ہو گئیں۔

سَنگھ کی یہ کانگریس مُکت بھارت کی پہلی کامیابی تھی جس میں اس وقت جے پرکاش نارائن نے کیجریوال کا رول ادا کیا تھا۔ پھر سنہ 1985 میں جب راجیو گاندھی نے مسلم قانون کے ذریعہ مسلمانوں کو تین طلاق کا پھر سے حق دے دیا، تو سنہ 1986 میں بوفورس بدعنوانی کا معاملہ اٹھ کھڑا ہوا۔ اب اس تحریک کے روح رواں وی پی سنگھ تھے جن کے ذریعہ سَنگھ نے راجیو گاندھی کو مسلم حمایت کا سبق سکھایا اور ایک بار پھر ملک میں کانگریس مُکت بھارت پروجیکٹ کامیاب ہو گیا۔ اب اس سیاست کے مہرے وی پی سنگھ بنے۔ اس سیاست کی تیسری کڑی انّا ہزارے تحریک تھی، جس کے سیاسی مہرے اروند کیجریوال ابھر کر سامنے آئے۔ اور اب انھوں نے اس دیوالی پر پوجا کر باقاعدہ سَنگھ کے ہاتھوں پر بیعت کر خود کے ہندتوا سپاہی ہونے کا اعلان کر دیا۔ کیجریوال سمجھ رہے ہیں کہ ملک میں ہندو لہر ہے اور اب ان کو مسلم اور سیکولر ہندو ووٹ کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ اگر مودی جب نپٹ جائیں تو سَنگھ ان کو مودی کے نعم البدل کے طور پر تسلیم کر ملک کا وزیر اعظم بننے میں مدد کرے۔

الغرض ملک میں کانگریس مُکت بھارت بنانے سے متعلق سَنگھ کا پروجیکٹ اپنی شد و مد سے جاری ہے اور کیجریوال اسی پروجیکٹ کے اہم حصہ ہیں۔ مسلم ووٹر اور سیکولر ہندو ووٹر کو کیجریوال جیسوں سے ہوشیار رہنا چاہیے اور بدعنوانی کے نام پر کوئی کانگریس مخالف تحریک کھڑی ہوتی ہے تو اس سے دور رہنا چاہیے۔ کیونکہ بدعنوانی مٹاؤ تحریک دراصل ملک سے کانگریس مٹاؤ اور ہندوستان کو ہندو راشٹر بناؤ پروجیکٹ کا حصہ ہوتی ہے۔

روزنامہ قومی آواز، نیو دہلی

Comments are closed.