کیا پاکستانی ریاست بلوچ عوام کا مسئلہ حل کر سکتی ہے؟


ذوالفقار علی زلفی

پاکستان کے معروف صحافی و ناول نگار محمد حنیف لکھتے ہیں اگر آپ پڑھے لکھے نوجوان بلوچ ہیں تو سمجھ جائیں آپ کی اوسط عمر دیگر اسی قسم کے پاکستانیوں سے آدھی ہوچکی ہے۔ نوجوان بلوچ پولیٹیکل سائنٹسٹ ساجد حسین ایک جگہ لکھتے ہیں ہم بلوچوں کی وہ نسل ہیں جو طبعی موت کا حق کھو چکے ہیں۔ ساجد حسین طبعی موت کا حق پانے کے لئے سویڈن ہجرت کر گئے مگر یہ حق وہ وہاں بھی نہ پاسکے بالآخر لاش بن کر ہی لو ٹے ۔

بلوچستان میں جبری گمشدگی کا آغاز یوں تو ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں سردار عطااللہ مینگل کے فرزند اسد مینگل کی جبری گمشدگی سے ہوا لیکن اس کو باقاعدہ ہتھیار کی صورت پرویز مشرف کے دور میں استعمال کیا گیا ۔آصف علی زرداری کے دور میں ایک بنیادی تبدیلی یہ آئی کہ جبری گمشدگان کی مسلسل مسخ لاشیں ملنے کا سلسلہ شروع ہوا جو نواز شریف دور کے آخر تک برقرار رہا۔ نواز شریف کے دور میں اجتماعی قبریں بھی دریافت ہوئیں ۔ عمران خان کے دور میں مسخ لاشوں کی برآمدگی پر عالمی اداروں کی تنقید کے بعد ایک نئی تبدیلی سامنے آئی ۔ اب جبری گمشدگان سی ٹی ڈی یا ایف سی کے ساتھ مقابلے میں دہشت گرد کا نام پا کر لاش بننے لگے ۔ یہ سلسلہ تاحال جاری ہے ۔

اس نئی پالیسی کے خوفناک پہلو یہ ہیں کہ ایک تو اس کے ذریعے بیک وقت دس دس جبری گمشدگان قتل کر دیے جاتے ہیں جو پہلے (زرداری و نواز دور) دو یا تین ہوتے تھے۔ دوسرا یہ کہ چوں کہ ان افراد کو دہشت گرد قرار دے کر جعلی مقابلوں میں مارا جاتا ہے اس لئے پاکستانی میڈیا بھی مثبترپورٹنگ کرکے انہیں عسکریت پسند کے طور پر پیش کرتا ہے۔ نتیجہ یہ انسانی حقوق کے تمام ادارے کنفیوز ہوجاتے ہیں ۔

عمران خان حکومت کے دور کا ایک نیا پہلو جلاوطن بلوچوں کا قتل ہے ۔اب سے زیادہ قتل کے واقعات افغانستان میں رپورٹ ہوئے، اس کے بعد ایران کا نمبر آتا ہے۔ جلاوطن بلوچوں کے قتال کو اس وقت زیادہ توجہ ملی جب معروف بلوچ صحافی و ادیب ساجد حسین سویڈن میں جبری گمشدگی کے بعد مردہ حالت میں بازیاب ہوئے اور اس کے چند ہفتوں بعد کینیڈا میں بلوچ قومی تحریک کی سرکردہ رہنما بانک کریمہ بلوچ پراسرار موت کا شکار ہوئیں ۔

جبری گمشدگی بلوچ سماج میں نوعی تبدیلیوں کا محرک بھی ثابت ہوئی ہے ۔ اس ہتھیار نے بلوچ سماجی و سیاسی زندگی پر دور رس اثرات مرتب کئے ہیں۔ بلوچ سیاست اور ادب کی ساخت اور لہجے میں بنیادی تبدیلیاں آرہی ہیں۔ سیاسی اقدار و ثقافت نے اپنی شکل بدل دی ہے ۔اس کا اہم ترین پہلو ایک قدامت پرست مردانہ سماج میں مزاحمتی سیاسی منظر نامے پر خواتین بالخصوص نوجوان لڑکیوں کی آمد ہے ۔ دوسری جانب بلوچستان کی پارلیمانی سیاست مکمل طور پر پاکستانی اسٹبلشمنٹ کے نمک خواروں کے ہاتھ جاچکی ہے جن کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بلوچستان اسمبلی آج ایک بے وقعت ادارہ بن چکا ہے۔

بلوچستان اسمبلی گئے وقتوں میں نواب اکبر خان بگٹی، سردار عطا اللہ مینگل، نوابزادہ بالاچ مری اور کچکول ایڈوکیٹ جیسے عوامی نمائندوں پر مشتمل تھا ۔ کچھ نہیں تو کم از کم وفاق کے ساتھ کھینچا تانی کرکے مسائل زدہ بلوچستان کے لئے وسائل کے چند قطرے لے ہی آتے تھے ۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔

پارلیمانی سیاست میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کسی حد تک عوامی نمائندگی کا بھرم رکھتے تھے۔ ڈاکٹر مالک بلوچ کی وزارتِ اعلی کے دوران جبری گمشدگی میں سو فیصد اضافہ، مسخ لاشوں کی مسلسل برآمدگی، اجتماعی قبروں کی دریافت، کرپشن اسکینڈلز ، اور ڈاکٹر مالک بلوچ کے منحرف رویے کے باعث نیشنل پارٹی کی عوامی مقبولیت گھٹ چکی ہے۔ پارٹی کے دوسرے اہم رہنما حاصل بزنجو کی دلچسپی نواز لیگ کو انصافدلانے میں رہی ۔اے این پی تاحال ایک امید تو ہے لیکن اپنے کنفیوز موقف اور سردار اختر مینگل کی عدم فعالیت نے اس پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔

جبری گمشدگی کسی مخصوص سماجی طبقے، علاقے یا قبیلے تک محدود نہیں ہے۔ یہ بلوچ اجتماعی زندگی کا حصہ بن چکا ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ بعض دور دراز خطوں کے جبری گمشدگان کا کوئی ریکارڈ ہی نہیں ہے۔ چند ہفتوں قبل شاہ زین بگٹی کی ایک ویڈیو وائرل ہوئی ۔ مذکورہ ویڈیو میں بعض بگٹی بزرگ شاہ زین سے فریاد کر رہے ہیں کہ ہمارے گاؤں کے آدھے سے زائد نوجوان لاپتہ ہیں خدا کے لئے انہیں بازیاب کرائیں ۔ پاکستان کو قدرتی گیس کی بلا تعطل ترسیل اور نواب بگٹی کی مزاحمت کے باعث ڈیرہ بگٹی ایک ممنوعہ خطہ ہے۔ وہاں کے حالات اور بگٹیوں کی زندگی کے نشیب و فراز پاکستانی میڈیا دور بلوچ میڈیا کا بھی حصہ نہیں بن پاتے ۔ یہی حال کوہستان مری (کوہلو و کاہان) کا ہے ۔ حکومتِ پاکستان کا بھونڈا مذاق دیکھئے، عمران خان نے بلوچ مسئلے کے حل کا ٹاسک اس شاہ زین بگٹی کو دے رکھا ہے جو اپنے آبائی علاقے کے مسائل حل کرنے کی بھی قدرت نہیں رکھتا۔

جبری گمشدگی کے سب سے بڑے متاثرین بہرکیف طلبا ہی ہیں ۔ طلبا رہنما ذاکر مجید بلوچ، زاہد بلوچ اور شبیر بلوچ کی جبری گمشدگی پر تو اتنے سال چڑھ چکے ہیں کہ بعض لوگوں نے بازیابی کی امید ہی چھوڑ دی ہے۔ ذاکر مجید کے بعد طلبا کی جبری گمشدگی میں بدترین اضافہ دیکھا گیا۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے ۔ گذشتہ ہفتے ہی چار طلبا بلوچستان یونیورسٹی سے حراست میں لے کر لاپتہ کئے گئے ہیں ۔ساتھی طلبا کی بازیابی کے لئے اس وقت بلوچستان یونیورسٹی کے طلبا احتجاج کر رہے ہیں ۔ وہ کلاسز اور امتحانات کا بائیکاٹ کرکے سڑکوں پر نکل چکے ہیں۔

بلوچستان میں تعلیم کبھی بھی پاکستانی حکومتوں کا مسئلہ نہیں رہا۔ طلبا کلاسز کا بائیکاٹ کیا سرے سے پڑھنا ہی چھوڑ دیں تب بھی حکومت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگے ۔ پاکستان کے نام نہاد آزاد میڈیا کو بھی بلوچستان میں کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ نام نہاد آزاد عدلیہ، جمہوریت پسند سیاسی جماعتوں اور پاکستان کے غم میں گھلتے دانش وروں سمیت کسی بھی پاکستانی ادارے کے لئے بلوچستان اہم نہیں ہے ۔ کل کا مرتا آج مرجائے سانوں کی والا معاملہ ہے ۔

ایسے میں طلبا کو سوچنا چاہیے کہ کلاسز کا بائیکاٹ کرکے وہ ایسا کیا حاصل کر پائیں گے جو ماما قدیر بلوچ طویل لانگ مارچ کا عالمی ریکارڈ بنا کر بھی حاصل نہ کرسکے ۔ میری نگاہ میں جبری گمشدگی کا مستقبل قریب میں کوئی حل نہیں ہے ۔ یہ عذاب مزید کئی سالوں تک بلوچ کو سہنا پڑے گا ۔ گذشتہ دنوں ارجنٹینا کے مایہ ناز فٹ بال کھلاڑی میراڈونا کی زندگی پر مبنی سیریز

“Maradona: Blessed Dream”

نظر سے گزری ۔فلم میں اس دور کے سیاسی حالات کا بھی مختصر جائزہ لیا گیا ہے جس میں سرِ فہرست جبری گمشدگی کا مسئلہ تھا۔ ارجنٹینا میں جاری جبری گمشدگی پر عالمی اداروں کا ضمیر سویا رہتا ہے ۔ بلوچ سیاسی جماعتوں کی بیچارگی پر ترس آتا ہے جب وہ ہر لمبے بیان کے آخر میں عالمی ادارے نوٹس لیںکا بینر ٹانگ دیتی ہیں ۔ عالمی اداروں کے ضمیر نہیں مادی مفادات ہوتے ہیں ۔مفاد ہو تو جمال خاشقجی مقتولبن جاتا ہے نہ ہو تو ساجد حسین حادثاتی موتقرار پاتا ہے۔ ارجنٹینا میں جبری گمشدگی اس وقت تک برقرار رہا جب تک غیر عوامی آمرانہ سیاسی نظام مضبوط رہا ۔

بلوچ مسئلہ بھی جب تک موجود ہے جبری گمشدگی ناقابلِ حل ہے۔ سری لنکا میں تامل ٹائیگرز کی شکست کو ایک دہائی گزر چکی ہے لیکن تامل قومی سوال زندہ ہے سو تامل نوجوانوں کی جبری گمشدگی کا سلسلہ بھی برقرار ہے ۔عالمی ضمیر وہاں بھی فی الحال سورہا ہے ۔ یہ پاکستانی کمیٹیاں، کمیشن، سرکاری بیانات، عدالتوں کے نوٹسز وغیرہ محض دھوکہ ہیں ۔ بلوچ کو اپنی راہیں جبری گمشدگی کے درمیان سے ہی نکالنی ہوں گی۔

Comments are closed.