کیا پاکستان کی ریاست نے را کے ایجنٹوں سے معاہدہ کر لیا ہے؟

کالعدم تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان معاہدے پر کئی پاکستانی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کی جا رہی ہے۔ یہ تنقید صرف حکومت کے مخالفین کی طرف سے ہی نہیں بلکہ حکومت کے کچھ حامیوں کی طرف سے بھی کی جا رہی ہے۔

کالعدم تحریک لبیک پاکستان نے گزشتہ کئی دنوں سے پنجاب کے مختلف شہروں میں کاروبار زندگی کو اپنے احتجاج کے ذریعے معطل کیا ہوا تھا۔ تحریک کے کارکنوں نے پہلے یہ دھرنا لاہور سے شروع کیا، جو شیخوپورہ سے ہوتا ہوا وزیر آباد آ کر رکا، جس کے بعد مذاکرات ہوئے  اور معاہدہ طے پایا۔

حکومت نے اس کالعدم تنظیم کو خبردار کیا تھا کہ اگر اس نے دھرنا ختم نہ کیا، تو اس کے خلاف طاقت کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس دھرنے اور احتجاج کے دوران کم از کم پانچ پولیس اہلکاروں کی ہلاکت کی اطلاعات ہیں جبکہ 200 سے زائد اہلکار زخمی بھی ہوئے۔ پنجاب حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ اس دھرنے کی وجہ سے معیشت کو اربوں روپے کا نقصان ہوا۔

 تحریک لبیک  کا ایک مطالبہ پاکستان میں موجود فرانسسیسی سفیر کی بے دخلی بھی تھا۔ لیکن مفتی منیب الرحمن کے مطابق تحریک لبیک نے کبھی یہ مطالبہ نہیں کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ  یہ حکومتی ارکان کا جھوٹا پراپیگنڈہ تھا۔

حکومتی وزراء کے سخت بیانات کے بعد ایک ایسا معاہدہ جس کو بہت سے ناقدین ٹی ایل پی کے مفاد میں دیکھتے ہیں، پر سخت تنقید ہو رہی ہے۔ سب سے سخت موقف وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کی بیٹی زینب ایمان مزاری کی طرف سے دیکھنے میں آیا، جنہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا، اب یہ ہماری فوج اور آئی ایس آئی کی سالانہ روٹین بن گئی ہے کہ پولیس اہلکاروں کو شہادت کے لیے ان لوگوں کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں، جن کی پرورش اور نگہداشت فوج اور آئی ایس آئی نے ہی کی۔ جرنیل خود جا کر ان کالعدم تنظیموں کے ساتھ بات چیت کرتے ہیں اور پولیس کو قربانی کے لیے آگے کر دیتے ہیں‘‘۔

سوشل میڈیا پر کئی ناقدین نے یہ بھی لکھا کہ ٹی ایل پی کو بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ قرار دیا گیا تھا، تو کیا اب حکومت را کے ایجنٹوں سے بات چیت کر رہی ہے؟ کچھ صارفین نے یہ بھی لکھا کہ حکومت نے اس فنڈنگ کا کیا کیا، جو ٹی ایل پی کو مبینہ طور پر را سے موصول ہوئی تھی۔

سیاستدانوں کی طرف سے بھی اس ڈیل پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، اس طرح کے معاہدوں سے انتہا پسند قوتوں کے حوصلے بڑھیں گے اور وہ پھر سڑکوں پر آئیں گے اور حکومت کو بلیک میل کریں گے۔ دراصل اس طرح کے گروپوں کو کچھ نادیدہ قوتیں فروغ دیتی ہیں اور جب وہ جن بوتل سے باہر آ جاتا ہے، تو پھر سارا ملبہ سیاستدانوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘۔

پاکستان پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس معاہدے کے حوالے سے بہت سے اہم سوالات ہیں، جن کے جوابات لے کر حکومت کو پارلیمنٹ میں آنا چاہیے۔ پی پی پی کی رہنما اور سابق سینیٹر سحر کامران نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، سب سے پہلے تو حکومت کو یہ مسئلہ پارلیمنٹ میں لے کر آنا چاہیے تھا، جہاں اس پر بحث ہونا چاہیے تھی اور پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر ہی کسی بھی طرح کی بات چیت کرنا چاہیے تھی۔ لیکن اس سے بھی پہلے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسی کالعدم جماعتوں سے مذاکرات کیوں کیے جائیں؟ وہ کس بنیاد پر کیے جائیں؟ ان کو قومی دھارے میں لانے کا مطلب کیا ہے؟ اس طرح وہ اگر قومی دھارے میں آتے ہیں، تو کیا وہ پورے معاشرے کو انتہا پسندی کی طرف لے کر نہیں جائیں گے؟ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ  مستقبل میں اس طرح سڑکیں بلاک نہیں کریں گے اور کاروبار کو نقصان نہیں پہنچائیں گے؟‘‘۔

سحر کامران کے بقول ملکی حکومت کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ اگر اس نے ٹی ایل پی کے لوگوں کی کوئی کمیونیکیشن روکی تھی اور ان کے بھارتی ایجنسی را سے کوئی روابط تھے یا را کی طرف سے فنڈنگ ہوئی تھی، تو پھر ایسی ملک دشمن جماعت سے مذاکرات کرنے کی ضرورت کیا تھی؟

پاکستان میں کئی حلقے اس معاہدے کے حامی بھی ہیں اور ان کے خیال میں حکومت نے دانش مندی کا مظاہرہ کیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حکومت ان کے خلاف طاقت استعمال کرنا بھی چاہتی، تو ایسا نہیں کر سکتی تھی کیونکہ حکومت کے قریبی اتحادیوں نے بھی اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ ایسی کسی کوشش کا حصہ نہیں بنیں گے جس کے تحت تحریک لبیک پاکستان کے خلاف طاقت استعمال کی جائے۔ اس پس منظر میں ملک میں کئی حلقے اس معاہدے پر خوش بھی ہیں کہ خطرہ ٹل گیا ہے اور اب کاروبار زندگی دوبارہ معمول پر آ جائے گا اور ملک میں غیر یقینی کیفیت کا خاتمہ ہو گا۔

dw.com/urdu

Comments are closed.