قصہ رحمتہ اللعالمین اتھارٹی اور اس کے چئیر مین کا

محمد اشفاق

انتہائی کوشش ہوتی ہے کہ شخصیات پہ بات نہ کی جائے۔ افکار، حالات اور نظریات پہ بات ہو۔ مگر کبھی ہم پہ ایسی شخصیات مسلط کر دی جاتی ہیں کہ ان پہ بات نہ کرنا بھی جرم محسوس ہوتا ہے۔ رحمت اللعالمین اتھارٹی کے سربراہ اول ڈاکٹر اعجاز اکرم صاحب بھی ایسی ہی ایک شخصیت ہیں۔ لیکن ان سے پہلے کچھ بات اتھارٹی پہ ہو جائے۔

اس اتھارٹی کا قیام سرے سے بلاجواز تھا۔ کہیں نہ اس کی ضرورت تھی نہ افادیت۔ نہ ہی ملک کے کسی بھی طبقے کی جانب سے اس کے قیام کا کوئی مطالبہ سامنے آیا تھا۔ اور نہ ہی دیگر کئی سرکاری سطح پر قائم مذہبی پلیٹ فارمز کے ہوتے ایک نیا ادارہ کھڑا کرنے میں کوئی حکمت پنہاں تھی۔یہ صرف اور صرف ایک تیزی سے غیر مقبول ہوتے ہوئے پاپولر لیڈر کی اپنی مقبولیت برقرار رکھنے کیلئے مذہب کا نام استعمال کرنے کی ایک کوشش ہے۔

اس کے قیام کا فیصلہ پہلے ہوا، اغراض و مقاصد بعد میں سوچے گئے۔چلیں مقاصد سوچ لئے گئے اور اتھارٹی بھی بنا دی گئی۔ کم سے کم جو احسان خان صاحب ہم پہ کر سکتے تھے، وہ یہ کہ ہمارے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقدس ترین لقب اس اتھارٹی کے نام کیلئے استعمال نہ کرتے۔

دیکھیں، بات سنیں میری، سرکاری اتھارٹیوں کے فیصلے عوام کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اور سرکاری اتھارٹیوں کے جہاں کچھ فیصلے درست اور سراہے جانے کے لائق ہوتے، وہیں بہت سے فیصلے غلط اور تنقید کے قابل بھی ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے قابل تنقید فیصلے زیادہ ہوا کرتے ہیں۔ نیپرا، پیمرا، اوگرا اور پی ٹی اے وغیرہ کا دیکھ لیں پبلک کیا حال کرتی ہے۔ اب اس اتھارٹی کا نام اللہ کے نبی کے نام پر رکھ دیا گیا ہے۔ جہاں تنقید ہوگی، معاذاللہ نام کس کا بدنام ہوگا؟

تصور کر کے ہی تکلیف ہوتی ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ خان صاحب جیسے نام نہاد عاشق رسول کو یہ سیدھی سامنے کی بات دکھائی کیوں نہیں دی؟

مجھ جیسے متعدد گناہ گاروں نے اس وقت بھی یہ التجا کی تھی، دوبارہ کر رہا کہ خدا کا واسطہ ہے اس کا کوئی اور اچھا سا نام رکھ لیں۔ ہمیں تو اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لقب کے ساتھ اتھارٹی جیسا سابقہ لاحقہ لگا دیکھ کر بھی اضطراب ہوتا ہے۔

یہ آپ سے نہیں ہوتا کہ اس کیلئے تھوڑا درد دل اور تھوڑی بصیرت درکار ہے، تو کم سے کم آپ اتنا کر سکتے تھے کہ ایک شفاف عمل کے ذریعے، ایک غیرمتنازعہ اور قابل احترام شخص اس اتھارٹی کے سربراہ کے طور پر چن لیتے۔آپ نے بندہ بھی ڈھونڈا تو اپنے جیسا۔

ڈاکٹر صاحب کی ڈگریوں پہ کوئی شک نہیں۔ تجربے پہ بھی نہیں۔ مگر ان کے خیالات و نظریات انتہائی مشکوک ہیں۔

جمہوریت پہ آپ سرے سے یقین نہیں رکھتے۔ آپ کے خیال میں پاکستانی عوام اس قابل نہیں ہیں کہ اپنا اچھا برا خود سمجھ سکیں۔ اس لئے انہیں اچھا برا سمجھانے کا کام ملک کی طاقتور اشرافیہ کے سپرد ہونا چاہئے۔مزید جناب کا فرمانا یہ ہے کہ بلوچی، سندھی، پختون اور سرائیکی قوم پرست غیرملکی قوتوں کے ایجنڈے اور فنڈنگ کے سہارے اپنے حقوق مانگتے پھر رہے ہیں۔

قومی امور پہ جناب کے سب خیالات روایتی ایسٹیبشلمنٹ جیسے ہیں اور ایسا سمجھ بھی آتا ہے کہ تین سال یعنی 2017 تا 2020 آپ نے جنرل رضوان اختر، جنرل ماجد احسان اور جنرل عامر ریاض کی بطور ایڈوائزر جوتیاں سیدھی کی ہیں۔ تین سال میں ڈیفنس یونیورسٹی کے چار صدر بدل گئے مگر آپ کی نوکری پکی رہی تو اس کی وجہ یہی خوبیہے۔

مذہبی امور پہ جناب کا خیال ہے کہ مسلمانوں کو علمی طور پہ پسماندہ رکھنا یہودیوں کی سازش ہے۔ نائن الیون پہ جناب کی اپنی ہی ایک سازشی تھیوری ہے۔ لبرل ازم اور سیکولرزم کو بھی مغربی سازش خیال کرتے ہیں۔چینی ان کے خیال میں دہریے نہیں مؤحد ہیں۔

اکیڈیمک امور میں جناب کی خدمات یہ ہیں کہ اب تک تین خواتین سامنے آ چکی ہیں جنہوں نے ان پر براہ راست ہراسمنٹ کا الزام لگایا ہے۔ جبکہ دو خواتین پروفیسرز جنہوں نے ان کے ساتھ کام کیا یا کانفرنسوں میں شرکت کی، وہ بالواسطہ ان الزامات کی توثیق کر رہی ہیں۔ یعنی یہاں بھی روایتی مذہبی منافق والا کردار ہے جناب کا۔

اور میں خود کو صرف ان کے پروفیشنل کیرئیر اور نظریات تک محدود رکھ رہا ہوں۔ ان کی جو تصویر زیر گردش ہے، میں اسے شئیر نہیں کرنا چاہتا۔ مگر اس تصویر سے جناب کا جو تاثر ابھرتا ہے وہ کسی رحمت اللعالمین اتھارٹیکے سربراہ کیلئے انتہائی غیر موزوں ہے۔

ان کی تقرری کا عمل بھی انتہائی غیر شفاف ہے۔ سپریم کورٹ اپنے متعدد فیصلوں میں خودمختار یا نیم خودمختار سرکاری اداروں کے سربراہان کی تقرری کے معیار طے کر چکی ہے۔ اے کیس ان پوائنٹ پیمرا کے سابق سربراہ جناب ابصار عالم کی برطرفی کا ہے۔ اس کیس میں بھی سپریم کورٹ نے وزیراعظم کے صوابدیدی اختیارات کو بعض شرائط کا پابند کیا ہے۔

ایک ایکٹ آف پارلیمنٹ یا صدارتی آرڈیننس کے تحت قائم اتھارٹی کے سربراہ کے تقرر کیلئے کیا کوئی اشتہار شائع ہوا؟ کیا اور کتنے امیدواروں کو شارٹ لسٹ کیا گیا؟

یہ شارٹ لسٹ امیدوار کون تھے؟ کیا وزیراعظم نے ان سب کے انٹرویو لئے؟ یا صرف انہی صاحب کو بلا کر چیئرمین کا عہدہ تھما دیا؟ سی پیک اتھارٹی پہ تو ہم کچھ نہیں کہتے کہ وہاں نام کہیں اور سے آتے۔ وزیراعظم بیچارے نے صرف سٹیمپ لگانا ہوتی ہے۔ لیکن کیا اب سب اداروں میں ایسے ہی تقرریاں ہوں گی؟

اگر وزیراعظم خود اس مبینہ پریڈیٹر، الٹرا رائٹ قسم کے شخص کو اس عہدے سے نہیں ہٹاتے تو سینئیر وکلاء سے درخواست ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کی بنیاد پر اس بندے کی تقرری چیلنج کر دیں۔

یہ کہنا کہ محض عمران خان کی مخالفت میں ڈاکٹر اعجاز اکرم کو بدنام کیا جا رہا ہے، سراسر زیادتی ہے۔ قبلہ ایاز صاحب کا تقرر بھی خان صاحب ہی نے فرمایا تھا۔ اکیڈمک حلقوں سے اکادکا پیشہ ورانہ رقابت کی بنیاد پر مخالفانہ بیانات کے علاوہ کسی نے ان کی تقرری کی مخالفت نہیں کی۔ آپ ٹھیک جگہ پہ ٹھیک بندہ لگائیں تو کوئی نہیں بولتا۔

رحمت اللعالمین اتھارٹی تب تک ہمارے لئے سفید ہاتھی بنی رہے گی جب تک پاکستان قائم ہے اور پاکستان آپ جانتے ہی ہیں کہ تاقیامت قائم رہنے کیلئے بنا ہے۔سیاسی لیڈروں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ جب آپ مذہب کے نام پر کوئی ادارہ کھڑا کر کے اس میں چار پانچ مولوی بٹھا دیتے ہیں تو پھر اس ادارے کی کوئی افادیت ہو نہ ہو، عوام کے ٹیکسوں پہ اس کا ہمیشہ کیلئے حق ہو جاتا ہے۔

بھٹو مرحوم نے اسلامی نظریاتی کونسل آئین کے جائزے اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ترامیم تجویز کرنے کیلئے بنائی تھی۔ یہ کام مکمل ہوئے غالباً پچیس تیس برس ہو چکے۔ کسی سیاسی لیڈر میں اتنی ہمت نہیں کہ اس فضول ادارے کو ختم کر سکے۔رویت ہلال کمیٹی کی اکیسویں صدی میں عملی افادیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ آپ کا طاقتور وزیر کئی ماہ اس پہ بیان دے دے کر تھک گیا۔ رویت ہلال کمیٹی کا آپ بال بیکا نہیں کر سکتے۔

اب آپ تصور کر لیں کہ کل کو پی پی یا نون لیگ کی حکومت اس رحمت اللعالمین اتھارٹی جیسی بیکار مشق سے جان چھڑانا چاہے تو اس پر بلاسفیمی کا الزام لگا دیا جائے گا۔ مدنی بوائز اسلام آباد پہ ٹوٹ پڑیں گے۔ اور فوج کا ترجمان اپنے ادارے کے عشق رسول کی گواہیاں دے رہا ہو گا۔خان صاحب سستی پوائنٹ سکورنگ ہی نہیں کر رہے اپنے بعد آنے والی حکومتوں کیلئے گڑھا کھود کر جا رہے ہیں۔ اور شاید اتھارٹی کے قیام میں پنہاں واحد حکمت یہی ہے۔

Comments are closed.