افغانستان کے لیے امداد۔ پاکستان اور بھارت میں بیک وقت کانفرنسیں

پندرہ اگست 2021 کو طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے بعد ملک کی معاشی و سماجی صورتحال سنگین ہوتی جارہی ہے۔ موسم سرما کی آمد سے افغانستان کے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔اقوامِ متحدہ کے انسانی امداد اور کوآرڈینیشن کے انڈر سیکریٹری جنرل مارٹن گریفیتھ نے کہا کہ دنیا افغانستان میں تباہی ہوتے دیکھ رہی ہے اور اگر جلد کچھ نہ کیا گیا تو وہاں ہونے والے معاشی و انسانی بحران کو نہیں روکا جاسکے گا۔

افغانستان میں امداد کے لیے حصول کے لیے پاکستان نے او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس بلوائی ہے۔ پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کا کہنا ہے کہ عالمی طاقتوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کی آمد کے بعد افغانستان پر عائد کی گئی پابندیاں ہٹائیں۔ ’یہ انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، یہ کوئی سیاست نہیں ہے۔ن کا کہنا تھا کہ ہمیں امید کرنی چاہیے کہ او آئی سی اجلاس سے افغانوں کے لیے کوئی راستہ نکل سکے۔

عین اس وقت جب پاکستان میں او آئی سی کے وزرائے خارجہ کی کانفرنس جاری ہے ، بھارت نے بھی وسطی ایشیا کے ممالک کا اجلاس طلب کررکھا ہے جس میں او آئی سی کے پانچ ممالک ،کرغزستان، تاجکستان، قزاقستان، ترکمانستان اور ازبکستان کے وزرائے خارجہ نے پاکستان کی بجائے بھارت جانے کو ترجیج دی ہے۔

سیکرٹری خارجہ اعزاز چوہدری کے مطابق ترکمانستان، ازبکستان اور تاجکستان سمیت وسطی ایشیائی ممالک کے پاکستان کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں اس لیے انڈیا اور پاکستان کی کانفرنس کا ’کوئی موازنہ نہیں بنتا۔

ان کا کہنا تھا کہ عالمی طاقتوں پر دباؤ بڑھایا جا رہا ہے کہ وہ طالبان کی آمد کے بعد افغانستان پر عائد کی گئی پابندیاں ہٹائیں۔ ’یہ انسانی ہمدردی کا معاملہ ہے، یہ کوئی سیاست نہیں ہے۔‘

انڈیا میں پاکستان کے سابق سفیر عبد الباسط  کا کہنا ہے کہ دلی میں ہونے والی تیسری سالانہ کانفرنس ’پہلی بار نہیں ہو رہی اور یہ کئی ماہ پہلے سے شیڈول تھی۔ اس میں ان کے وزرائے خارجہ کا جانا ضروری تھا۔‘

وہ مزید کہتے ہیں کہ دوسری طرف اسلام آباد میں افغانستان کی صورتحال پر او آئی سی کا غیر معمولی اجلاس محض دو ہفتے پہلے شیڈول ہوا اور اس میں بہت سے وزرائے خارجہ نہیں آ رہے مگر اسلام آباد کے اجلاس میں ان کی شمولیت نائب وزرا اور خصوصی نمائندوں کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے ان دونوں چیزوں کو ملانا مناسب نہیں‘۔

انڈیا سے امورِ خارجہ کی ماہر انورادھا چنوئے نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’یہ ڈائیلاگ انڈیا اور وسط ایشیائی ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہو رہا ہے۔ یہ بات وسط ایشیا کی ہے، او آئی سی کی نہیں۔ جیسے انڈیا کے سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے ویسے ہی اب وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ روابط قائم رکھے گئے ہیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ افغانستان سے متعلق انڈیا اور پاکستان سمیت پوری دنیا کے خدشات ہیں۔ ’یہ حالات صرف افغانستان تک محدود نہیں رہیں گے، جیسے لڑائی سرحدوں تک قید نہیں رہتی ویسے ہی انسانی حقوق کا بحران سرحدیں عبور کر سکتا ہے‘۔

انورادھا سمجھتی ہیں کہ افغانستان کا مسئلہ محض سکیورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ اس سے پناہ گزین کا بحران بھی برپا ہو سکتا ہے اور منشیات کی سمگلنگ بھی بڑھ سکتی ہے۔ ’انڈیا یہ نہیں چاہتا کہ او آئی سی میں کشمیر کی بات ہو لیکن وہ اپنے مفاد کے لیے او آئی سی کے ممالک کے ساتھ رابطے رکھتا ہے، چاہے بات تیل کی ہو یا سکیورٹی کی‘۔

ان کے مطابق انڈیا شروع سے طالبان سے دور رہا ہے کیونکہ دہشتگردی کے حوالے سے اس کے خدشات ہیں لیکن اب وہ افغانستان میں حکومت قائم کر چکے ہیں۔انڈیا نے گذشتہ افغان حکومت کی کافی حمایت کی تھی مگر اب یہ دباؤ ہے کہ سکیورٹی کی خاطر طالبان کے ساتھ کسی سطح پر تعلقات ہونے چاہیے، اگر وہ اپنی سرزمین پر دہشت گردی روکیں‘۔

انڈیا سے تجزیہ کار منیش جھا نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انڈیا میں ہونے والے ڈائیلاگ پر مشترکہ بیان سے ایسا لگتا ہے جیسے زیادہ زور علاقائی روابط اور تجارت پر ہے، جیسے یہ بات ہوئی ہے کہ تعلقات بڑھانے کے لیے ایران کے چاہ بہار پراجیکٹ کا استعمال ہوسکتا ہے۔انڈیا کو لگتا ہے کہ اگر وہ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ تعلقات بناتا ہے تو وہ افغانستان میں بھی اپنے مفادات کا تحفظ کر سکے گا۔‘

جبکہ دوسری طرف عالمی برادری کا مطالبہ ہے کہ طالبان نے دوحہ معاہدے پر جو دستخط کیے تھے اس پر جب تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا اس کے بغیر افغانستان کی ضبط شدہ رقم کو طالبان کے حوالے نہیں کیا جا سکتا۔

واضح رہے کہ اس سے پہلے نومبر میں پاکستان کے تین روزہ دورے پر آئے امیر خان متقی نے ایک کانفرنس کے دوران امریکہ کی پالیسیوں پر طنز کرتے ہوئے کہا تھا کہ زور زبردستی کے حربے نہ 20 سال پہلے چل سکے تھے اور نہ اب چل سکیں گے۔ ہم نے کبھی امریکی صدر بائیڈن کو نہیں کہا کہ وہ صدر ٹرمپ کو اپنی کابینہ کا حصہ بنائیں۔ آپ کو افغانستان آنے پر پتا چلے گا کہ وہاں خواتین کو کتنے حقوق حاصل ہیں‘۔

بی بی سی اردو

Comments are closed.