میں نیشنل ازم پہ کاربند کیوں ہوں؟۔حصہ سوم


مہرجان

شناخت و قومیت پہ ا یک بڑا اعتراض جو لبرل حلقوں کی طرف سے کیا جاتا ہے کہ شناخت و قومیت اپنانے میں آپ کی اپنی رضامندی (آزادی) شامل نہیں تو پھر ایسے میں شناخت و قومیت کے لیے یہ مزاحمت چہ معنی دارد ؟ یا یہ کہ شناخت فطری نہیں ہے ،اس لیے شناخت کی کوئی اہمیت نہیں ہے جس کے لیے انسان تگ و دو کرے۔ بنیادی ضروریات اگر پوری ہوں تو یہی انسانیت کی بقاء ہے ۔

لیکن لبرل حضرات یہی اعتراض کرکے اپنی انفرادی شناخت کےحوالے سے بہت فکر مند بھی ہوتے ہیں کہ انہیں کوئی رجعت پسند نہ کہے ، لیکن کسی بھی محکوم قومی شناخت پہ سوال آئے جس سے ان کی اپنی شناخت چھین کر ان پہ کوئی اور شناخت تھونپی جارہی ہو تو وہ ایسے ہی لاتعلق نظر آتے ہیں جیسے مذہبی حضرات ، اور یہ لوگ برملا یہ کہتے ہیں کہ کوئی شخص اس شناخت کہ لیے کیوں مزاحمت کریں جو انہیں پیدائشی طور پر جبراََ ملی ہو ، میرے خیال میں یہ لبرل حضرات جن کا تعلق ریاست پاکستان سے ہے۔ شناخت ،قومیت و مذہب کو ایک ہی تناظر میں لیتے ہیں۔ حالانکہ ایک ہی مذہب میں دو اقوام یا ایک ہی قوم میں دو مذاہب ہونا کوئی انہونی بات نہیں ۔

دراصل شناخت ، قوم و ثقافت میں رضامندی (انسان کی اپنی مرضی ) یا آزادی کا تصور مذہب کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے ، یہاں آزادی کا تصور محض مابعدالطبیعاتی نہیں بلکہ جدلیاتی ہے ، یعنی کُلّی آزادی کا تصور کہیں بھی نہیں ،آپ کے اس دنیا میں آنے میں بقول ہائیڈگر آپ کی مرضی نہیں لیکن ہایڈگر کی اس بات کو بنیاد بنا کر مکمل جبر کو بطور میکنزم ماننا یا دوسری طرف آزادی کو ایبسلوٹ ماننا بھی دونوں تصورات حقیقت پر مبنی نہیں۔

انسانی آزادی کے تصور پہ فلسفہ کی دنیا میں بہت کچھ لکھا گیا ۔جیسا کہ پہلے کہا گیا فلسفہ فقط جاننا نہیں بلکہ عمل کی ایک دنیا بھی ہے اور عمل کے لیے کس قدر انسانی آزادی میسر ہے یہ بنیادی طور پہ فلسفہ کا سوال رہا ہے ، وجودیت میں وجود کو جوہر پہ مقدم رکھ کر انسان کی آزادی کی بات کیفیات کی حد تک کی گئی جبکہ جرمن عینیت پسند بنیادی طور پہ انسانی آزادی کی بات کرتا ہے ،جرمن جہاں فلسفہ کو شباب ملا ، جرمن عینیت پسندوں کانٹ ، فیختے ، شیلنگ اور ھیگل کے فلسفوں کا بنیادی نکتہ نظر انسانی آزادی ہے ، شیلنگ نے باقاعدہ آزادی کو اپنے فلسفہ کی بنیاد بنایا ، جن کا تعلق جرمن آئیڈل ازم کے بانیوں میں ہوتا ہے ۔

انہوں نےآزادی کو خدا کہا ، یہاں یہ بات ذہن نشین رہے جب کسی فلاسفر کے حوالے سے تصور خدا کی بھی بات ہوگی وہ تصور مذہبی تصور خدا سے یکسر مختلف ہوگا ، جرمن آئیڈل ازم میں انسانی آزادی کے تصور کے لیے بعض جگہ خدا کو فرض کیا گیا اور بعض جگہ فطرت سے الگ رکھ کر دیکھا گیا، ھیگل نے (جنہیں جرمن آئیڈل ازم کا مغز کہا جاتا ہے) انقلاب فرانس میں تصور آزادی کی محدودیت کو جان کر آزادی کو جدلیاتی و تاریخی تناظر میں بیان کیا کہ پوری تاریخ آزادی کی نشو نما کی تاریخ ہے ، جس میں شناخت کی جنگ جاری و ساری ہے۔

اب انسان مکمل طور پر نہ فقط تاریخی طور پہ جبر محض ہےاور نہ انسان کے لیے کُلی آزادی ہے کہ وہ اپنی شناخت کے معاملے میں کُلّی طور پہ آزاد ہے بلکہ تاریخ کے سفر میں بقول ھیگل لازمیت(جبر ) کا جاننا اور اس جبر میں امکانات کا پیدا کرنا ہی آزادی ہے، لیکن کسی بھی شناخت پہ لازمیت کے لوازمات سے بے بہرہ ہو کر کسی اتفاقیت کو بنیاد بناکر دوسروں کی شناخت کو کسی بھی ازم کا سہارے لیکر اُن پہ تھونپنا کالونیل ازم و فاشزم کے سوا کچھ بھی نہیں ، اب بجائے فاشزم کے خلاف ریاستی لبرل دانشور سیسہ پلائی دیوار بنے اس کی بجائے وہ محکوم اقوام کو تلقین کرتے نظر آتے ہیں کہ شناخت پہ چونکہ آپ کی مرضی و آذادی شامل نہیں اس لیے اس شناخت کے لئے مزاحمت کرنا بے سود ہے اور اس دلیل کے لئے وہ اس دور کو “مابعد نظریاتی دور” جیسی اصطلاح کا نام دے کر لوگوں کو مرعوب کرتے نظر آتے ہیں ۔

اب یہ اعتراض کہ شناخت فطری و بنیادی نہیں ہے ،انسانی تاریخ خود فطرت کا اظہار ہے اور فطرت میں انسان اپنی شناخت کے لیے مسلسل برسرپیکار ہے ۔ اسی لیے بقول شخصے” مجھے اصطلاحوں سے خوف آتا ہے “۔

فرینکفرٹ مکتبہ فکر کے مفکر ایرک فرام نے“صحت مند معاشرے “کے نام سے اک کتاب لکھی جہاں بقول شہزاد احمد مارکس اور فرائیڈ کے درمیان پُل بنانے کی کوشش کی گئی ہے ایرک فرام کے مطابق بُھوک اور سیکس کے علاوہ بھی انسان کی فطری و بنیادی ضروریات ہیں ، صرف بُھوک کے مٹ جانے سے یا سیکس کے تمام تر لوازمات پورے ہونے سے اک صحت مند معاشرہ کا قیام ممکن نہیں یہ تخفیف پسندی کہ بھوک اور سیکس ہی انسان کی بنیادی اور فطری ضروریات ہیں کسی بھی معاشرے کے لیے زہر قاتل ہے۔

ایرک فرام کے مطابق ایسے معاشرے جہاں نہ بھوک کا سوال ہے اور نہ ہی سیکس کا وہاں پہ خود کشی کے رجحانات بہت زیادہ ہیں کیونکہ وہاں شناخت کے سوال کو نظر انداز کیا گیا ہے ، یورپ میں آج شناخت کے لیے جدوجہد یا ریفرنڈم کرانا اسی بات کی غمازی ہے ،کسی بھی قوم کی شناخت کا منکر ہونا جس طرح بقول فینن فاشزم ہے اسی طرح شناخت کو فطری و بنیادی نہ مان کر خاموش رہنا بھی فاشسٹ رجحان ہے ،کسی بھی قوم کی شناخت و ثقافت کو مسخ کرنا ، بقول گاندھی اسے بندوق مارنے سے بڑھ کر خطرناک ہے۔

اسی تناظر کو سمجھنے کے لیے افغانستان سے ثروت نجیب کی نظم اس کی بہترین عکاسی ہے

افغان، کیمرہ اور کلاشنکوف

تم نے

سدا مجھے کیمرے کی آنکھ سے دیکھا

ہمیشہ

تمھارے لینز کا زوم

میرے کندھے پہ لٹکی کلاشنکوف پہ فوکس رہا

تم نے میری بانسری

اور شیشوں سے مزین نسوار کی ڈبیا

کو نظر انداز کر کے

میرا جو روپ دنیا کو دکھایا

وہ میرا آدھا سچ تھا

میری مکمل کہانی

میری کلائی پہ گودے ہوئے گلاب کے پھول کی طرح

ہمیشہ پوشیدہ رہی

کیونکہ میرے کف کے بٹن

میری ثقافت کی وجہ سے اکثر بند رہتے ہیں

تم نے میری مہندی سے رچی انگلیوں کی پوروں،

کان میں اڑسے مرسل کے پھول

اور شوخ دھاگوں سے کاڑھی گئی رخچینہ ( ٹوپی ) سے بھی

اندازہ نہیں لگایا

کہ میرا دیہاتی ذوق کتنا رنگین ہے

مجھے روسی ٹینکوں

خانہ جنگی کے دنوں میں داغے گئے میزائلوں

اور امریکی بی باون طیاروں سے گرائے گئے بموں نے

اتنا زخمی نہیں کیا

جتنا تمھاری فوٹو گرافی نے مجھے اور میری شہرت کو گھائل کیا ہے

میں آج تک کسی کو بتا نہ سکا

کہ دراصل

کلاشنکوف میں نے حملہ آور جنگلی بھیڑیوں کو ڈرانے کے لیے اٹھا رکھی تھی

یہ اور بات کہ

بھیڑیے روپ بدلتے رہے

اور میں

دنیا کی نظروں میں جنگ جُو کا جنگ جُو ہی رہا

(جاری ہے)

حصہ اول

https://nyazamana.com/2021/12/why-i-am-nationalist/

حصہ دوم

https://nyazamana.com/2021/12/why-i-m-a-nationalist-2/