امریکی انتظامیہ مسئلہ کشمیر پر گفتگو کو اپنے لیے وقت کا ضیاع سمجھتی ہے

بیرسٹرحمید باشانی

چند دن قبل ان سطور میں عرض کیا تھا کہ رن آف کچھ کے تنازعہ پر صدر ایوب نے صدرلنڈن جانسن کو خط لکھا کہ وہ بھارت کو یاد دلائیں کہ اگر بھارت نے پاکستان پر حملہ کیا تو امریکہ  بھارت کے خلاف پاکستان کا ساتھ دے  گا۔ جواب آں غزل کے طور پر لال بہادر شاستری نے تئیس مئی1965کو صدر جانسن کے نام اپنے خط میں پاکستان پر جارحیت کا الزم لگایا، اور کہا کہ وہ بھارت کے خلاف امریکی ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔  لال بہادر شاستری نے یہ خط اس وقت لکھا، جب  شاستری کو صدر جانسن کی طرف سے ان کا دورہ امریکہ منسوخ کرنے پر سخت غصہ اوردکھ تھا ۔ انہوں نے لکھا

سولہ اپریل 1965کو سفیر چیسٹر باؤلز نے مجھے آپ کا پیغام  پہنچایا، جس میں مجھے بتایا گیا کہ مختلف وجوہات کی بنا پرآپ کے لیے  پروگرام کے مطابق دو جون کو واشنگٹن میں میرا استقبال کرنا آسان نہیں ہوگا۔ آپ کی خواہشات کے احترام میں، امریکہ کا دورہ منسوخ کرنے پر، جو جون کے اوائل میں طے تھا، مجھے فطری طور پر کچھ مایوسی ہوئی ہے ۔ آپ نے مشورہ دیا ہے کہ مجھے خزاں میں امریکہ کا دورہ کرنا چاہیے۔ تاہم، میں فی الحال یہ نہیں کہہ سکتا کہ آیا میری پارلیمانی مصروفیات اور دیگر وعدے مجھے ایسا کرنے کی اجازت دیں گے۔

مجھے سفیر ہنری کیبوٹ لاج سے مل کر خوشی ہوئی،  جنہوں نے مجھے آپ کا پندرہ اپریل کا خط بھی دیا۔ میں ان سے ویتنام کی صورتحال کے بارے میں جاننے میں دلچسپی رکھتا تھا۔ صورت حال واقعی مایوس کن اور خطرناک ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایسے حالات کا پیدا ہونا ممکن ہو سکتا ہے، جو بات چیت سے ویتنام کے مسئلے کے پرامن حل کی اجازت دیں۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کے ذہن میں بھی یہی خیال غالب ہونا چاہیے۔ آج کے حالات میں جب چین ایک جارحانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے، کسی بھی حد تک یقین کے ساتھ، ممکنہ طور پر واقعات کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ لیکن جناب صدر، مجھ پر یقین کریں، میں خلوص دل سے محسوس کرتا ہوں کہ اگر آپ کے لیے  ویت نام پرہوائی حملوں کو روکنے پر غور کرنا ممکن ہو تو زیادہ عقلی بنیادوں پر سوچنے والے عناصر ممکنہ طور پرمثبت جواب دیں گے۔ آپ کی طرف سے اس طرح کا فیصلہ عالمی امن کے فروغ اور پر امن حل کے لیے ایک اہم کردار ادا کرے گا، اوریہ عمل ان اعلیٰ مدبرانہ روایت کے مطابق ہو گا،  جس کا مظاہرہ امریکہ نے بحران کے لمحات میں کیا ہے۔

ہم خود ایک مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ بلاشبہ آپ کو سندھ کے سرحدی علاقے رن آف کچھ میں پاکستان کی طرف سے ہم پر حالیہ حملے سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ہم ایک پرامن قوم ہیں،  جو امن اور معاشی ترقی کے حصول کے لیے جتے ہوئے ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ہمارے پڑوسی چین اور پاکستان ہمیں مشتعل کرنے کے لیے کمر بستہ ہیں۔ ہم بہت صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں، اور ہم نے وزیر اعظم ہیرالڈ ولسن کے اقدام کا مثبت جواب دیا ہے، تاکہ جنگ بندی کر کہ سٹیٹس کوہ کو بحال کیا جا سکے۔پاکستان یکم جنوری 1965 سے لے کر جنگ بندی اور سٹیٹس کو کی بحالی کے حوالے سے ہر قسم کی مشکلات کھڑی کر رہا ہے، جس کی وجہ سے کوئی معاہدہ نہیں ہو سکا۔ یہ حقیقت کہ پاکستان ہمارے خلاف امریکی ہتھیار اور ساز و سامان استعمال کر رہا ہے۔  اس سے ہمارے ملک میں قدرتی طور پر بہت زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ تاہم میں جانتا ہوں کہ آپ کی حکومت پہلے ہی یہ معاملہ حکومت پاکستان کے ساتھ اٹھا چکی ہے۔

اس خط میں وزیر اعظم شاستری نے امریکہ کی طرف سے اپنا دورہ امریکہ منسوخ کرنے کا مختصر زکر کیا، لیکن حقیقت میں جو حالات برصغیر میں چل رہے تھے ، ان کے پیش نظر یہ لال بہادر شاستری کے لیے بہت سنگین معاملہ تھا۔ رن آف کچھ کے بحران پر صدر جانسن سے خط کتابت اور سفارتی پیغامات کے علاوہ ان کا خیال تھا کہ امریکی دورے کے دوران وہ صدر جانسن سے ذاتی طور پر مل کر امریکہ کی طرف سے پاکستان اور بھارت کو اسلحہ اور مالی مدد کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر واضح کریں گے۔

جس طریقے سے یہ دورہ منسوخ کیا گیا، وہ بھی شاستری کے لیے قطعا قابل قبول نہیں تھا، اور اسے سفارتی حلقوں میں توہین آمیز قرار دیا گیا۔ ہوا کچھ یوں کہ صدر جانسن نے  وزیر اعظم شاستری کے وزیر اعظم بنتے ہی ان کو جون میں دورہ امریکہ کی دعوت دی، جو شاستری نے فل فور قبول کر لی۔ شاستری بنیادی طور پر اکتوبر میں امریکہ کے دورے کے خواہشمند تھے، لیکن اکتوبر میں پہلے سے صدر ایوب کا دورہ طے تھا۔ اس منسوخی پر امریکی سیکریرٹری آف سٹیٹ ڈین رسک نے امریکی سفیر چیسٹر بولز کو بتایا کہ صدر جانسن  جنوب مشرقی ایشیا میں اپنی مصروفیات کی وجہ سے صدر ایوب اور شاستری کا دورہ منسوخ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کے لیے خود صدر جانسن نے ایک خط بھی ارسال کیا۔

لیکن ایمبسیڈر بولز کو اس خبر کا علم کسی خط یا سرکاری ذرائع کے بجائے ریڈیو پاکستان کے بلیٹن سے ہوا۔ اس نے فورا وائٹ ہاوس سے اس خبر کی تصدیق چاہی۔ وائٹ ہاوس نے تصدیق کردی کہ صدر بہت زیادہ تھکاوٹ کا شکار ہیں، ان پر بہت زیادہ دیگر ا ہم زمہ داریاں ہیں، جس کی وجہ سے وہ شاستری سے ملاقات کے لیے وقت نہیں نکال سکتے۔ اس شام جب ایمبسیڈر بولز نے شاستری سے ملاقات کی تو وہ بہت زیادہ دکھی تھے۔ بولز نے لکھا کہ اگر ان سے کہا جاتا تو وہ شاستری کوبتا سکتے تھے کہ چونکہ وہ اکتوبر میں دورہ کرنے چاہتے تھے، اس لیے وہ جون کے بجائے اکتوبر میں آئیں، مگر اس کا ان کو موقع نہ ملا، کیوں کہ منسوخی کی خبر پاکستان سے آئی تھی۔

سوال یہ تھا کہ یہ خبر امریکی سفارتی حلقوں اور شاستری  تک پہنچنے سے پہلے ریڈیو پاکستان تک کیسے پہنچی؟  بہرکیف شاستری کا  یہ دورہ منسوخ کر دیا گیا، اور وہ بطور وزیر اعظم کبھی امریکہ کا دورہ نہ کر سکے۔ حقیقت یہ تھی کہ اپنے پیشرو جے ایف کنیڈی کے بر عکس صدر لنڈن جانسن کو جنوبی ایشیا کی سیاست میں کوئی دلچسبی نہیں تھی۔ وہ مسئلہ کشمیر اور پاکستان انڈیا کے درمیان دوسرے تنازعوں کو وقت اور وسائل کا ضیاع قرار دیتے تھے۔ جانسن کی اقتدار کے پانچ سالوں کے دوران امریکہ کے پاکستان کے ساتھ تعلقات انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئے۔ حالاں کہ جانسن صدر ایوب کے بارے میں بہت اچھی رائے رکھتے تھے۔

صدر جانسن نے 1967 میں صدر آئزن ہاور کو بتایا تھا کہ وہ آج تک  جن لوگوں سے ملے ہیں، ان میں ایوب خان ایک قابل ترین آدمی ہیں،اور اس آدمی میں بہت بڑی کشش ہے۔  لیکن دوسری طرف صدر جانسن اور ان کے کچھ کانگریس کے دوست ممبران کا یہ موقف  تھا کہ پاکستان بھارت تنازعہ اور مسئلہ کشمیر جیسے مسائل پر باقی تمام خارجہ امور سے زیادہ امریکہ کا وقت اور وسائل ضائع ہوتے ہیں۔ مگر بد قسمتی دوسری  طرف پاکستان اور بھارت دونوں اپنے تنازعات کے حل کے لیے امریکہ کی طرف ہی دیکھتے تھے۔ جانسن کی عدم دلچسبی کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے درمیان رن آف کچھ جیسے واقعات پر ثالثی نہ ہونے کی وجہ سے حالات خراب ہوتے چلےگئے، یہاں تک کہ جنگ کے حالات پیدا ہو گئے۔  صدر جانسن نے  جنگ رکوانے کی کسی کوشش کے بجائے حیرت انگیز طوراپنے سفارتکاروں کو انتظار  کرنے کا حکم دیا، جس کا احوال آئندہ سطور میں پیش کیا جائے گا۔

Comments are closed.